ففتھ جنریشن وار فئیر، ایک افسانہ ۔۔۔


پاکستان حالت جنگ میں ہے، یہ جملہ پیدائش سے لے کر آج تک ہمارے کانوں میں گونج رہا ہے۔ اسی جملے کی پاداش میں ملک دوٹکڑوں میں بٹ گیا اور اسی کے تحت ایک اور تابناک تفریق کی جانب گامزن ہے۔

ففتھ جنریشن وار بھی اسی جنگ کی ایک کہانی ہے۔ جو بلا وجہ ہم پر مسلط کر دی گئی ہے۔ ففتھ جنریشن کو تفصیلاً جاننے کے لئے جنریشن آف وار کی دیگر چار حالتوں کو سمجھنا ناگزیر ہے۔ مختلف جنگی ماہرین اس تقسیم کو مختلف انداز میں دیکھتے ہیں جن کو تفصیل سے پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے تاہم ہم ان تعریفات کا مختصرجائزہ پیش کیا جائے تو وہ کچھ یوں ہے کہ،

فرسٹ جنریشن وار قدیم جنگی لڑائیاں ہیں جو دو بڑی فوج کے درمیا ن تیروں اور تلواروں سے لڑی جاتی تھیں۔ قدیم یونانی جنگیں، ایتھنز اور سپارٹا کی لڑائیاں اس کی مثالیں ہیں۔ سیکنڈ جنریشن وار فئیر میں تیروں تلواروں کی جگہ جدید اسلحہ اور بندوق نے لے لی۔ اب افواج میں جسمانی طاقتور سپاہیوں کی جگہ تیز، چست اور بہترین نشانہ باز سپاہیوں کو افواج میں شامل کیا گیا۔ جنگ عظیم اول اور اس سے پہلے کی کچھ جنگیں اس کی مثالیں ہیں۔

بندوق کے بعد جدید اسلحہ اور ہتھیاروں کے ساتھ جب میزائل، نیوی اور ایٹم بم سے لڑی جانی والی جنگوں نے تھرڈ جنریشن وار کو جنم دیا۔ جبکہ فورتھ جنریشن وار ایک جدید نوعیت کی جنگ تھی جس میں فوج کے ساتھ ساتھ نان سٹیٹ ایکٹرز نے اہم کردار ادا کیا۔ مثلاً سرد جنگ میں امریکہ اور سوویت یونین کے مابین جنگ براہ راست اپنی افواج کی بجائے مقامی طاقتوں کو مضبوط کر کے لڑی گئی۔ تا کہ ریاست کے اندر سے بغاوت پھیلائی جائے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھایا جائے۔

اسی مد میں امریکہ نے طالبان پیدا کیے ۔ نان سٹیٹ ایکٹرز کے ساتھ سفارت کاری اور معیشت جیسے ہتھیاروں سے بھی لڑا جاتا رہا۔ اسی لئے افواج کے ساتھ ساتھ پراکسیزکا کردار بھی اہم حیثیت حاصل کر گیا۔ ففتھ جنریشن وار کو فورتھ جنریشن وار کا ہی ارتقائی عمل قرار دیا گیا ہے۔ تاہم میرے نزدیک یہ ایک افسانوی داستان کے سوا کچھ بھی نہں۔ ففتھ جنریشن وار کو ہائیبرڈ وار فئیر کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ جنگ باقاعدہ ہتھیاروں کی بجائے اذہان سے لڑی جاتی ہے۔

برین واشنگ کر کے ریاست کے خلاف بغاوت پیدا کی جاتی ہے۔ تاہم کچھ ادارے اس کا نام استعمال کر کے اسے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اپنی غلطیوں کو چھپانے کے لئے سچ بولنے والوں کو دشمن قرار دیتے ہیں۔ دنیا کے وہ تمام ممالک جن کی اسٹیبلیشمنٹ بالواسطہ یا بلا واسطہ ملک کی سیاسی کمان سنبھالے ہوئے ہیں اپنی بقا کے لئے ایسی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہیں۔

جب جب ملکی جمہوریت مضبوط ہونے لگتی ہے۔ سیاستدان، سیاسی ورکرز اور عوام، عوامی مینڈیٹ، جمہوری اقدار یا اس سوشل کنٹریکٹ (جو عوام اور حکمران کے درمیان ہوا) پر عمل داری کی بات کرتے ہیں تو اسے ریاست کے خلاف غداری گردانا جاتا ہے۔ سول حکومت کو کمزور کرنے کے لئے ایسی اصطلاح کو ان پر تھوپ دیا جاتا ہے تاکہ عوام میں اپنا رعب برقرار رکھیں اور سول حکومت ان کی چھتر چھایا میں چلتی رہے۔

میرے نزدیک اگر یہ جنگ جاری بھی ہے تو یہ ایک مزاحمتی اور مثبت جنگ ہے۔ اس میں ایک طرف بے بس عوام ہیں تو دوسری طرف وہ گروہ جو ان سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔

اس مزاحمتی جنگ کے مقاصد، عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی، آئین کی اصل روح پر عملدآمد اور سول بالا دستی پر مشتمل ہیں۔ ریاست عوام کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں کیونکہ اس کے نزدیک یہ تمام مطالبات اگر تسلیم کیے جاتے ہیں تو ان کے رہنے کا جواز نہیں رہے گا۔ اسی لئے وہ اس اصطلاح کی صورت نئی جنگ ہم پر مسلط کر رہی ہے تاکہ عوام کو الجھائے رکھیں اور اپنے مقاصد حاصل کرتے رہیں۔

بصورت یہ کہ اگر یہ جنگ لڑوائی بھی جارہی ہے تو اس میں بغاوت کرنے والے عناصر کو بھی تو پرکھنا چاہیے۔ اس میں دشمن کے مفادات غیر آئینی یا غیر قانونی تو نہیں۔ سر سید نے رسالہ اسباب بغاوت ہند لکھی تو انہوں نے انگریز سامراج کو باور کروانے کی کوشش کی تو لکھا گیا کہ انگریز کی زیادتیوں کے باعث بغاوت ہوئی جو جنگ آزادی کی بنیاد بنی۔ دشمن اگر ریاستی باشندوں کو اکسا رہا ہے تو ریاست کیونکر ان وجوہات کو نظر انداز کرکے اپنے ہی باشندوں کو دشمن سمجھ بیٹھی ہے۔ اتنی چھوٹی سی باتوں پر اپنے شہریوں کو ان کا آلہ کار کیوں بنا رہی ہے؟ انہیں ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں پر عمل کرنا چاہیے، ان اسباب کا تدارک کرنا چاہیے یا ان مطالبات مانگنے والوں کا قلع قمع کر دینا چاہیے؟ اگر اتنی ہی مجبوری ہے تو آئین کو پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے تا کہ کسی بھی چیز کا جواز ہی باقی نا رہے۔

ففتھ جنریشن کی بوگس اصطلاح اپنے مفادات اور غلطیوں کو چھپانے کے سواکچھ نہیں۔ آئین پر عملداری کریں، اسی کے وعدے کے مطابق شہریوں کو آزای اظہار اور دیگر بنیادی حقوق فراہم کریں، میں یقین دلاتا ہوں کہ یہ جنگ بہت جلد اپنے انجام کو پہنچے گی۔ ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہوگا۔ اور اگر اسی طرح : ملک حالت جنگ میں ہی۔ : جیسے الاپ گاتے رہے اور اپنی درست سمت کا تعین نا کیا تو یہ جنگ ففتھ جنریشن سے کہیں آگے جائے گی اور اس کی نئی اصطلاح کا سد باب مشکل ہو جائے گا اور مجھے ڈر ہے کہ کسی ایسی بہت بڑی بغاوت کا پیش خیمہ ثابت نا ہو جیسی بغاوت مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش کی شکل میں نمودار ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).