کُکڑا دَھمی دیا


ایک زمانہ گزر چکا ہے۔ ہم ایک اور زمانے میں اتر چکے! ایک اور زمانہ جو مختلف ہے۔ سنّاٹا ہے۔ گہرا سنّاٹا۔ رات لمبی ہے اور کالی! کہیں کہیں کوئی تارا نرم مدہم لَو دے رہا ہے۔ چاند کب کا رخصت ہو چکا ہے۔ دور سے آواز آتی ہے اندھیرے کھیتوں کے اوپر آہستہ آہستہ پر پھیلاتی۔

کُکڑا دھمی دیا کُویلے دِتی اَیی بانگ ماہیا ٹور بیٹھی تے میکوں پچھوں لگا ارمان اے پَو پھٹے کے مُرغ! تونے ناوقت اذان دی اور میں نے ماہیا رخصت کر دیا اب بیٹھی افسوس کر رہی ہوں!! دنیا کی کوئی زبان رات دَھم جانے کا ترجمہ نہیں کر سکتی! پھو پھٹنا یا صبحِ صادق شاید قریب تر ہو۔ مگر رات دَھمنے کا مطلب صرف پو پھٹنا تو نہیں! اس میں تو زمانے بھرے ہیں۔

رات دھم جاتی ہے مگر اُس وقت جب فراق کے طویل لامتناہی اندھیروں سے جگر خون ہو چکا ہوتا ہے۔ مرغ کی اذان۔ جدائی کا کڑا استعارہ ہے۔ ایک زمانہ لد چکا۔ ہم ایک اور زمانے میں اتر چکے ہیں۔ مسافر مرغ کی اِس اذان کے ساتھ‘ جب رات دھم چکتی تھی۔ گھر سے رخصت ہوتا تھا۔

تعطیل کے دن برق رفتاری سے گزر چکے ہوتے تھے۔ رات سونے سے پہلے سامان‘ ٹرنک میں ڈال کر رختِ سفر تیار کر دیا جاتا تھا۔ سرِ شام خاتون خانہ صحن کے کونے میں نصب مٹی کے چولہے سے جلتے انگارے لے کر مٹی کی انگیٹھی میں ڈالتی اور اندر کمرے میں لے آتی۔

اس انگیٹھی کے گرد بیٹھ کر‘ لالٹین کی روشنی میں وصال کا آخری عشائیہ کھایا جاتا۔ کھانے کے بعد‘ ماں تھی یا بیوی‘ کوئلوں پر کڑھا ہوا دودھ مٹی کے پیالے میں ڈال کر اندر لاتی اور اُن آنسوئوں کے ساتھ مسافر کو پیش کرتی جو لالٹین کی ملگجی روشنی میں دکھائی نہ دیتے۔ پھر سونے سے پہلے لالٹین بجھ جاتی!

رات کروٹیں لیتے گزرتی آدھی رات کے وقت باہر صحن میں نکلتا تو صحن چاند کی روشنی میں نہا رہا ہوتا۔ مسافر شکیب جلالی کا شعر پڑھتا ؎ خزاں کے چاند نے پوچھا یہ جُھک کے کھڑکی میں کبھی چراغ بھی جلتا ہے اس حویلی میں پھر رات دَھمتی تھی۔ مرغ مسافر کو بیدار کرتا۔ ملازم گھوڑے پر زین کستا اور کُوچے میں لاکھڑا کرتا۔

پھر صبحِ صادق کے اُس کرب ناک وقت میں آنسو امڈتے۔ کچھ بہتے۔ کچھ رُکتے۔ سورج قدموں کے ان نشانوں پر چل کر طلوع ہوتا۔ مسافر کو ٹرین پر چڑھا کر دوپہر کو گھوڑا اور ملازم واپس آتے تو گھر کی ویرانی میں اضافہ ہو جاتا!

یہ وہ زمانہ تھا جب لوگ ڈرتے نہیں تھے۔ رات سے نہ رات کے اندھیرے سے نہ آسیب سے! وہ راتوں کو سفر کرتے۔ تن تنہا‘ پیدل یا گھوڑے پر۔ پہاڑوں‘ ٹیلوں چٹانوں اور پتھروں کے درمیان! ندی نالوں کو عبور کرتے‘ دریائوں کو پار کرتے‘ برچھی یا بندوق کی معیت میں! زمین پر رینگتے سانپ دکھائی دیتے۔ سرسراتے کھیتوں سے خرگوش اور گیدڑ بھاگتے نکلتے اور ستاروں کی روشنی میں راستہ دیکھتے غائب ہو جاتے۔

مہمان آتا تو پہلے اُس کے گھوڑے کے لئے تھان اور چارے کا انتظام کیا جاتا۔ مہمان کی ضیافت پرندوں کے گوشت سے کی جاتی! ایک یا زیادہ سے زیادہ دو ڈشیں ہوتیں۔ تب ڈشیں تعداد میں زیادہ نہ ہوتیں مگر جتنی ہوتیں ان کی مقدار خوب ہوتی۔ گلبدن بیگم ہمایوں نامہ میں لکھتی ہے کہ ہمایوں نے پھوپھیوں کی ضیافت کی تو پچپن بھیڑیں ذبح کیں کسی اور ڈش کا نام نہیں لکھا۔

ہیرلڈ لیم نے امیر تیمور پر کمال کی کتاب لکھی ہے مگر بریگیڈیئر گلزار احمد نے اس کا جو ترجمہ کیا ہے‘ اصل سے بڑھ کر کیا ہے۔ ایسا اسلوب کہ پڑھتے ہوئے خمار آتا ہے۔ افسوس یہ معرکہ آرا ترجمہ اب نایاب ہے’’میری لائبریری‘‘ نے شائع کیا تھا۔ اس میں لکھا ہے کہ موٹی روٹیاں گوسفند کے شوربے میں ڈبو کر کھائی جاتیں!

دھات کی دیگیں بہت بعد میں عام ہوئیں۔ پہلے کھانا مٹی کی دیگوں میں پکتا تھا۔ انہیں کٹوے کہا جاتا۔ زمین پر لمبی نالیاں کھودی جاتیں ان میں آگ جلاتے اور اُوپر‘ قطار اندر قطار یہ کٹوے رکھ دیے جاتے۔

تاروں بھرا آسمان گئی گزری داستان بن چکا ہے۔ تب لوگ چھتوں پر یا صحنوں میں سوتے۔ شہروں کے تنگ مکانوں کے سامنے گلیوں میں بھی سو جاتے۔ رات بھر چاندنی۔ تاروں کی لو اور ہوا کا مزہ اٹھاتے۔ اوس پڑتی۔ بستر گیلے ہو جاتے۔ سر سے پائوں تک چادر اوڑھ لی جاتی۔

تب مچھر دانیاں عام تھیں۔ سرِ شام چارپائیوں پر تان دی جاتیں۔ چھڑکائو کیا جاتا۔ صحن چارپائیوں سے بھر جاتے۔ راتوں کو جھونکوں کی تاب نہ لاتے ہوئے درخت جھومتے۔ قدرت کا ایئر کنڈیشنر چلتا۔ اب ہم جس عہد میں گلے گلے تک دھنس چکے ہیں اس میں مفلس کا یہ حال ہے کہ چھت کے پنکھے تلے حبس بھری رات اس طرح گزارتا ہے کہ بار بار کپڑے سے گردن گلے اور چہرے کا پسینہ پونچھتا ہے اور آسودہ حال ایئر کنڈیشنر میں سو کر جوڑوں کے درد کو دعوت دیتا ہے۔

تازہ ہوا‘ تاروں کی لَو اور چاندنی مفلس کو میسر ہے نہ امیر کو! مال مست اور حال مست دونوں اندر مقید ہیں۔

اب انسان کمرے میں پیدا ہوتا ہے۔ وہیں پلتا بڑھتا ہے۔ وہیں لڑکپن اور شباب گزارتا ہے۔ پھر جب بوڑھا ہو کر چارپائی سے لگتا ہے تو گھر میں بھی کمرہ ہی اُس کے مقدر میں لکھا ہے۔ یا ہسپتال کا وارڈ۔ آخری سانس لیتے وقت۔ دنیا کی آخری چیز جس پر نظر پڑتی ہے‘ چھت کا پنکھا ہے۔

پھر فراق کی دھوپ ڈھلتی ہے۔ ہفتے میں دو بار آنے والا چھٹی رساں خط لاتا ہے جس میں آمد کا ذکر ہے۔ سب کچھ بدل جاتا ہے۔ گھر کی دیواروں کو لکڑی کی سیڑھی پر چڑھ کر پوچے سے سفید کیا جاتا ہے۔ کمروں میں مٹی کا فرش نیا بچھتا ہے۔ گول پتھروں سے مٹی کے فرش کو مزید ہموار اور چکنا کیا جاتا ہے۔ صحن میں کیاریوں کی کانٹ چھانٹ ہوتی ہے۔ اب رات دھمتی ہے تو مرغ کی آواز ناوقت نہیں لگتی۔ اب یہ مژدہ جانفزا ہے۔

پھر مسافر پہنچتا ہے تو اعزہ و اقربا جمع ہوتے ہیں۔ گلی کوچوں میں چلتا ہے تو بڑی بوڑھیاں کھڑا کر لیتی ہیں۔ بلائیں لیتی ہیں۔ احوال پوچھتی ہیں۔ راستے عجیب تھے۔ دونوں طرف کانٹوں کی باڑ ہوتی۔ مخالف سمت میں سفر کرتے لوگ ایک دوسرے کو‘تپاک سے ملتے۔ سب کو پتہ ہوتا کہ یہ کون ہے‘ کس کا بیٹا ہے۔ کس کا پوتا ہے۔ اس اثنا میں جس جس گھر میں کوئی دنیا سے چل بسا ہوتا‘ اس کی ‘ گھر گھر جا کر تعزیت کی جاتی۔ دعا کو ہاتھ اُٹھتے۔

ہر بستی کے مضافات میں گورستان ہے۔ جہاں صرف انسانوں کی قبریں نہیں۔ وقت بھی مدفون ہے۔ وقت کا ایک ٹکڑا آتا ہے۔ اس کے ساتھ بچے ہوتے ہیں یہ بچے اور وقت کا ٹکڑا ایک ساتھ بڑے ہوتے ہیں۔ لڑکپن ‘ شباب‘ پھر بالوں میں چاندی اترتی ہے۔ رخسار سونا ہونے لگتے ہیں‘ وقت کا ٹکڑا ان سب کو ساتھ لیتا قبرستان میں دفن ہو جاتا ہے۔ پھر نئی پیدائشیں ہوتی ہیں۔ نئے قبرستان وجود میں آتے ہیں۔ پھر یہ قبریں بھی دھنستی جاتی ہیں ؎ لوچِ مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا ۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).