دھماکے، خود کش حملے: میرے حیران کن مشاہدات


خود کش دھماکوں کے بے شمار زخمی دیکھے ہیں اور جسم سے جان نکلنے کے مناظر بھی رٹے جا چکے ہیں۔ دو دن پرانے اور ایک ہفتہ پرانے مردہ جسم کی بو بھی لاشعور میں پختہ ہو چکی ہے۔ دھماکوں کے فوری بعد انسانی جسم اور ذہن کا ردعمل کیسا ہوتا ہے اپنی آنکھوں سے متعدد بار دیکھا ہے۔ موت کیسے کسی کو چھوڑ دیتی ہے اور کسی کو اپنا لیتی ہے بہت تجربہ ہے۔ کوئی کس اطمینان سے خود کش حملہ میں جان دیتا ہے تو سکون کیسے چہرے پر نظر آتا ہے وہ بھی دیکھا ہے۔ انسان اپنے بعض معاملات موت کے سامنے بھی چھپانے کی کوشش کرتا ہے اس کا نظارہ بھی ہو چکا ہے۔

اخبارات میں بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے زخمیوں کے تڑپنے کا جو جملہ لکھا ہوتا ہے وہ پوری حقیقت نہیں۔ بم یا خود کش حملہ میں بھلے ٹانگیں کٹ جائیں، بازو اڑ جائیں نہ کوئی تڑپتا ہے نہ چیختا ہے بلکہ خاموشی سے اس پاس دیکھ رہا ہوتا ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو پر خود کش حملے کے بعد گیٹ جہاں سے بی بی کی گاڑی نکلی تھی اس کے پاس ایک نوجوان کو دیکھا جس کی دونوں ٹانگیں غائب تھیں اور بھل بھل خون بہہ رہا تھا اطمینان سے بیٹھا اپنے فون سے گویا کسی کو میسیج کر رہا تھا۔

ایک اور نوجوان کو دیکھا جس کا شاید نصف جسم اڑ چکا تھا خاموش آنکھوں سے نصف بیٹھا اور نصف لیتا ہوا اس پاس کے مناظر دیکھ رہا تھا۔ خود کش حملہ یا بم دھماکہ کا نشانہ بننے کے بعد شاید اعصاب سن ہو جاتے ہیں شاید تکلیف کا فوری احساس نہیں ہوتا یا شاید ذہن کچھ وقت کے لئے کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، ہم نے تو جتنے بھی زخمیوں کو دیکھا نہ کوئی چیخ رہا تھا نہ تڑپ رہا تھا بس خاموش لیٹا یا بیٹھا دیکھا بے شک نصف جسم دھماکے کی بھینٹ چڑھ گیا ہو۔

ایف ایٹ کچہری دھماکہ میں انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کا ایک اور انوکھا منطر اج بھی اپنی تمام تر جزئیات سمیت یاد ہے۔ ڈاکٹر اسرار شاہ کی مرضی اور انہیں بتائے بغیر لکھ رہے ہیں ان سے معذرت کر لیں گے۔ ڈاکٹر اسرار پکے دوست تھے ہر دوسرے تیسرے روز پیپلز پارٹی کے میڈیا سیل میں ان سے ملاقات ہوتی تھی۔ وہ اونچے لمبے خوبصورت جیالے تھے لیکن کسی کو بھی خبر نہیں تھی ڈاکٹر اسرار وگ لگاتے ہیں۔ ایف ایٹ کچہری دھماکے میں ڈاکٹر صاحب کی دونوں ٹانگیں اڑ گئی تھیں۔

ڈاکٹر صاحب ایک دن قبل ڈالی گئی ریت کے قریب ہی کھڑے تھے جس کے نیچے بم چھپایا گیا تھا ان کے ساتھ پارٹی کی دو خاتون کارکن کھڑی تھیں دونوں شہید ہو گئیں۔ ڈاکٹر اسرار کی دونوں ٹانگیں غائب تھیں لیکن اس عالم میں دونوں ہاتھوں سے وہ اپنے سر پر لگی وگ سنبھال رہے تھے اور اپنے خوفناک حد تک زخمی جسم و جان کو بھولے ہوئے تھے ہمیں بھی اس دن پتہ چلا کہ ڈاکٹر اسرار شاہ وگ لگاتے ہیں۔ ہم نے بعد میں ڈاکٹر صاحب کو بتایا لیکن انہوں نے کہا کہ انہیں یاد نہیں۔

میریٹ ہوٹل پر ہونے والے خود کش حملے کا ایک منظر ہمیں آج بھی اچھی طرح یاد ہے۔ دھماکے کے وقت ہم آخری ہال میں تھے جہاں صرف دو تین لوگ زخمی ہوئے تھے۔ دھماکہ کے بعد ہوٹل کے تباہ ہو جانے والے استقبالیہ کے ملبہ میں ایک زخمی غیر ملکی کو ایک اور شخص کی مدد سے باہر لیجانے کی کوشش کی۔ ہم نے زخمی کو ٹانگوں کی طرف سے پکڑا ہوا تھا اس کے جسم نے ہلکے ہلکے جھٹکے کھانے شروع کر دیے ہم نے مددگار کو بتایا کہ یہ مر رہا ہے اس کو چھوڑو قریب موجود دوسرے زخمی کو لے جاتے ہیں وہ شخص نہیں مانا وہی ہوا چند لمحات میں وہ غیر ملکی مر گیا۔ زخمی جب خون کی کمی یا کسی بڑے زخم کی وجہ سے جان کنی کے عالم میں ہوتا ہے ہماری مشاہدہ ہے ایک منٹ سے کم وقت میں اس کی جان نکل جاتی ہے اور جسم جھٹکے کھاتا ہے۔

آبپارہ خود کش دھماکہ لال مسجد آپریشن کے بعد ہوا تھا اور خود کش حملہ کرنے والا لال مسجد مدرسہ کا طالبعلم تھا۔ ہم نے صحافتی زندگی میں کئی خود کش حملہ آوروں کے مردہ چہروں کا دیکھا ہے لیکن آبپارہ خود کش حملہ آور کے مردہ چہرہ پر جو سکون اور اطمینان ہم نے دیکھا وہ آج بھی اس لمحہ کی طرح یاد ہے۔ ہمیں اکثر خیال آتا ہے وہ نوجوان خود کش حملہ آور اپنے حملے کو دکھی انسانیت یا اسلام کی بہت بڑی خدمت سمجھ کر اس کا مرتکب ہوا تھا جب ہی اس کے چہرے پر اس قدر اطمینان تھا۔

آبپارہ خود کش حملہ سگریٹ کے کھوکھے کے پاس ہوا تھا اور چند لمحات پہلے ہم وہاں سے سگریٹ لے کر دوسری سمت گلی میں مڑے ہی تھے پیچھے دھماکہ ہوا گیا اور صاف بچ گئے۔ اس سے قبل جنگ کے بیورو آفس میں کسی نے اطلاع دی کہ دفتر خود کش حملے کا خدشہ ہے اس لئے آبپارہ چلے گئے خود کش حملہ وہاں ہو گیا۔

ایف ایٹ کچہری جس جگہ دھماکہ ہوا ہم وہاں ڈاکٹر اسرار شاہ کے پاس کھڑے گپ شپ لگا رہے تھے۔ سگریٹ لینے قریب کھوکھے پر گئے پیچھے دھماکہ ہو گیا بھاگ کر واپس آئے ہر طرف دھماکے کے زخمی نظر آ رہے تھے۔ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور سب کا وقت بھی مقرر ہے۔ انسان مر جائے تو اس کے جسم میں خون منجمد ہو جاتا ہے۔ آزاد کشمیر زلزلہ کے اگلے روز 9 اکتوبر کو آئی ایس پی آر کے کرنل عتیق کی منت کر کے مظفر آباد جانے والے ہیلی کاپٹر میں سوار ہو گئے۔

مظفرآباد میں بے شمار گرے ہوئے مکانوں کے ملبہ سے خون بہتے ہوئے بارش کے پانی میں ملتے دیکھا۔ عمارتوں کے ملبے کے نیچے زخمی لوگ تھے لیکن ملبہ ہٹانے کے اسباب میسر نہیں تھے اور امدادی کارکن بھی نہیں تھے جبکہ مقامی لوگوں میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جن کے اپنے گھر والے زلزلہ میں شہید ہو چکے تھے۔ مظفر آباد کے گرے ہوئے گھروں کے ملبہ سے بہتا ہوا خون کبھی نہیں بھولتا کہ زخمی لوگ ملبہ تلے دبے پڑے تھے اور انہیں نکالنے والا کوئی نہیں تھا۔

انسانی بے بسی کا ایک اور منظر بھی یاد ہے ایک مارکیٹ اپنے لینٹر سمیت گری پڑی تھی اس کے نیچے سے کسی بچے کے رونے کی آواز آ رہی تھی اور ایک عورت دیوانہ وار اس بھاری کنکریٹ کے لینٹر کو اٹھانے کی کوشش کرتی تھی لیکن کوئی اس کی مدد نہیں کر سکتا تھا۔ ایک ہفتہ بعد دوباہ مظفر آباد گئے تو لینٹر اسی طرح موجود تھا لیکن نہ وہ عورت تھی اور نہ لینٹر کے نیچے کوئی آواز۔

انسان کی کٹی پھٹی لاشیں جب ہسپتال کے بستروں پر قطاروں میں موجود ہوں تو اسی طرح کے بے روح گوشت کے بڑے بڑے پیس لگتے ہیں جیسے قصائی کے پاس لٹکے گائے اور دنبے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).