جو تاریک راہوں میں مارے گئے


سعید خان جان بحق ہو گیا۔ سعیدخان سجیلا تھا۔ سعیدخان جوان تھا اور اسی وطن کا تھا۔ اس نے راہ حق میں جان دی ہے۔ وہ اسی وطن کے لوگوں کی زندگی محفوظ بناتے ہوئے قربان ہواہے۔ وردی پہنے جان دے کراپنی وردی کا مان بڑھا گیاہے۔ اس نے اپنے وطن کے لوگوں کی حفاظت کرنے کی کھائی ہوئی قسم جان وار کر پوری کی ہے اور اپنے ساتھ اپنے محکمے کوبھی سرخروکرگیاہے۔

سعید خان نے 2011 میں وطن کی خدمت کے جذبے سے سرشار موٹروے پولیس میں بطور کانسٹیبل شمولیت اختیار کی تھی اور پھر 2015 میں محکمانہ کوٹہ پر سب انسپیکٹر منتخب ہوا۔ وہ ایک محنتی اور فرض شناس افسر تھا۔ فرض کی راہ میں جان تک قربان کر گیا۔

سعید خان جان بحق ہو گیا!

اس نے پسماندگان میں ایک سال کی ننھی سی پری اور جوان بیوہ چھوڑی ہے۔ وہ بھی کسی کی کل کاینات تھا۔ کسی بھی رنگ کی وردی پہنے انسان کی طرح اس کی بھی ایک چھوٹی سی فیملی تھی۔ جس کو ابھی اِس کی بہت ضرورت تھی۔ وہ کونپل جو بس ابھی پھوٹی تھی اسے اس سائے کی سخت ضرورت تھی جو اسے زمانے کے سرد گرم سے بچاتی اوراس کو تناور بناتی۔ وہ معصوم باپ کی شفقت کو محسوس کیے بنا اس کے سایہ شفقت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئی ہے۔

وہ جس کے ہاتھوں کی مہندی کا رنگ بھی ابھی پھیکا نہیں پڑا تھا، اس کی دنیا اچانک سے بے رنگ ہو گئی۔

سعید خان جان بحق ہو گیا۔

ان فورسمنٹ ایجنسیز میں شمولیت اختیار کرنے والے اچھی طرح سے جانتے ہوتے ہیں کہ انہیں فرائض کی خاطر کسی بھی وقت جان کی قربانی دینی پڑ سکتی ہے۔ اور وہ اس کے لیے ہر دم تیار رہتے ہیں۔ الحمدللہ جب جب فرائض نے ان کو پکارا تب تب ان جان باز سپاہیوں نے لبیک کہا ہے۔ ایک لمحہ کی بھی پس و پیش کیے بنا جانہں واری ہیں۔ موٹروے پولیس کی مختصر سی تاریخ بھی قربانی کی ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔

ایک عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ موٹروے پولیس کی نوکری خطرات سے خالی ہوتی ہے۔ مگر حقیقت یکسرمختلف ہے تحقیق کے مطابق ٹریفک حادثات کے نتیجے میں سالانہ 3۔ 1 ملین اموات ہوتی ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ٹریفک حادثات کو اموات کی دس بڑی وجوہات میں سے ایک وجہ شمار کرتی ہے۔ موٹروے پولیس افسر کی ساری ڈیوٹی اسی ٹریفک کو مونیٹر کرتے اور انہی سڑکوں پہ گشت کرتے گزرتی ہے۔ وہ ہرلمحہ خطرے میں گرا ہوتا ہے کسی روڈ یوزر کی ذرا سی غلطی و لاپروائی اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔

اوراس پر یہ کہ ارباب اختیارکی طرف سے موٹروے پولیس کو رسک الاونس نہ دینا خود ایک افسوس امرہے۔

موٹروے اورقومی شاہراؤں پر عوام کی مدداور حفاظت کو یقینی بنانے میں موٹروے پولیس اہم کردار ادا کررہی ہے۔ گرمی ہو یا سردی، دھوپ ہو یا بارش یہ ہمیشہ بروقت مسافروں کی مدد کو پہنچتی ہے۔ وہ مدد کبھی خراب گاڑی کی مرمت کے لیے مکینک کی دستیابی کی صورت میں ہوتی ہے تو کبھی حادثے کی صورت میں ابتدای طبی امداد سے لے کر زخمیوں کو اسپتال منتقل کرنے اور ان کو مزید نقصان سے محفوظ بنائے کی صورت میں ہوتی ہے۔ یہ روڈ کو عوام دشمن عناصر سے محفوظ بنانے سے لے کر خراب موسم جیسے دھند، طوفان میں لوگ کو محفوظ طریقے سے روڈ سے منزل مقصود تک پہنچا نے میں ہمہ وقت مصروف رہتی ہے۔

اسی طرح کی دھند میں حادثے والی جگہ کو محفوظ بناتے ہمارے سعید خان نے اپنی جان کی قربانی دی ہے۔ اگرچہ قومی اور اعلاقای میڈیا کے مطابق سعید خان جان بحق ہوا ہے (اوراس کی شہادت کومیڈیا کی جانب سے یوں رپورٹ کرنا قابل مذمت ہے)۔ مگر ہمارا سعید خان جان بحق نہیں ہوا، شہید ہوا ہے۔ وہ فرض کی راہ میں جان قربان کر کے امر ہو گیا ہے۔ اس نے ”جان دی جو دی ہوئی اسی کی تھی اور باخدا حق بھی پوری طرح ادا کیا ہے“۔ سعید خان اور اس جیسے افسر ز موٹروے پولیس کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ موٹروے کی آن، بان اور شان ہیں۔ موٹروے کا مان ہیں۔

سعید خان کا نام موٹروے کی لوح اعزاز پہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا ہے۔ وہ موجودہ اور آنے والے افسرز کے لیے مشعل رہ ہے۔

ہمارا سعید خان ”شہید“ ہے! ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).