ڈارون کا ثبوت زندہ ہے


ڈارون کا ثبوت زندہ ہے
انسان شہر میں درندہ ہے

جنگل جانوروں سے خالی ہوگئے اور انسان نما درندوں سے شہر بھر گئے۔ بلکہ انسان نے تو درندوں کو بھی مات دے دی۔ اور درندگی کی حد سے بھی تجاوز کر گئے۔ حیوانوں سے بھی بد تر سلوک کرنے والے جانور دندناتے پھرتے ہیں اور ظلم کا نشانہ بننے والے، انصاف کی آواز اٹھانے والے منوں مٹی تلے جا سوتے ہیں۔ ہم لوگوں نے وتیرہ بنا لیا ہے یا پھر ہم اخلاقی طور پر اتنے پست ہو چکے ہیں کہ کوئی ایک آدھ واقعہ ہمیں نہیں جگاتا۔ ہم تو تب جاگتے ہیں جب پانی سر سے گزر جائے۔

ایک دو سانحے سے پتہ نہیں چلتا کی کیا ہو رہا ہے۔ ایک بچی گھر سے سیپارہ پڑھنے جائے اور چھ دن بعد اس بچی کی لاش کچرے کے ڈھیر سے ملے وہ بھی اس حالت میں کہ لاش اپنا ماتم خود کر رہی ہو۔ تو کیا ایسے معاشرے کے لوگ انسان کہلانے کے حقدار ٹھرتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے، اُس اہلِ علاقہ کے لئے، اہلِ وطن کے لئے شرم کی نہیں ڈوب مرنے کی بات ہے۔ کہ ہم اپنی بیٹی کی حفاظت نہ کر سکے۔ جب کوئی بچہ گھر سے سیپارہ پڑھنے جائے، مدرسہ جائے، چیز لینے جائے، گھر کے کسی کام سے جائے۔

اور اس کو واپسی نصیب نہ ہو۔ کئی کئی دن بعد جب واپسی نصیب ہو جب گمشدہ بچوں کے ملنے کی اطلاع ملے تو وہ بچے ماں سے بچھڑنے کا دکھ بیان نہ کریں بلکہ ان کے بے جان لاشے اپنی بے حرمتی، ذہنی و جسمانی تشدد کی داستان سنا کر ماں کو دھاڑیں مار مار کر رونے پر مجبور کر دے۔ ہماری ننھی کلیوں کو بے دردی سے مسل دیا جائے اور ہم دو لفظوں کا پُرسہ دے کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ زمین پھٹتی ہے نہ آسمان گرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم آج زینب کی لاش پر نوحہ کناں کیوں ہیں۔

ہم نے زینب کے مسلے جانے پر ہی کیوں احتجاج کیا۔ جو آواز ہم نے آج اٹھائی ہے وہ آواز ہم نے سال پہلے کیوں نہ اٹھائی۔ جو ردِعمل ہم آج دکھا رہے ہیں وہ ردِ عمل سال پہلے کیوں نہ دکھایا۔ اگر ہم سال پہلے کی جانے والے زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی بچی کے لئے آواز اٹھا لیتے تو آج ہماری گیارہ بچیاں، گیارہ ننھی کلیاں درندگی کا نشانہ بننے سے بچ جاتیں۔ آج بارہویں معصوم کلی ہوس کی بھینٹ نہ چڑھتی۔ پہلا جرم ہوا گھر والے خاموش یوں کہ جُرم میں شریک وہ خود ہیں۔

ظلم کو چھپا لیا گیا دوسرا جرم ہو ا اہلِ علاقہ خاموش، تیسرا جرم ہوا حاکمِ شہر تک خاموش۔ جرم کرنے والوں کا حوصلہ کیوں نہ بلند ہوتا۔ ایک بچی سے زیادتی ہوئی ڈی این اے رپورٹ مجرم ایک شخص۔ دوسری کلی مسلی گئی دوسرا ڈی این اے مجرم وہی پہلا شخص تیسرا جرم مجرم پہلا شخص۔ چوتھا پانچواں جرم مجرم ایک ہی شخص۔ جرم کرنے والا چاق و چوبند، مستعد۔ جو چاہے کرے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ نگہبانی کرنے والے اس قدر سست، سوئے ہوئے کہ جو چاہے آٰئے اور گلشن اجاڑ کے چلا جائے۔

سینکڑوں اہلکاروں کی مستعدی اتنی کہ ایک ریپسٹ کو نہ پکڑ سکی۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہم انسانوں کی بستی میں رہتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ مہذب شہروں کو برباد کرنے کے لئے جنگل سے درندوں کا ہجوم نکل کر بستیوں کا رُخ کر چکا اور ہم درندوں کے آگے بے بس۔ ہم بے بس انسان نما گدھ دور بیٹھے اس تاک میں ہیں کہ کب کوئی بھیڑیا کسی میمنے کو چیر پھاڑ کے اپنی بھوک مٹائے اور ہم گدھ اس بچ جانے والی خوراک پہ جھپٹیں۔ یہ ضروری نہیں کہ کہ جب میڈیا کسی بات کو ہائی لائٹ کرے گا تو ہی ہم آواز اٹھائیں گے۔

میڈیا کے جگانے سے پہلے کیوں نہ ہم جاگیں۔ بات ایک زینب کی نہیں بات ہر اُس زینب کی ہے جو درندوں کی بھینٹ چڑھی۔ بات فیصل آباد کے فیضان کی ہے جو گم ہونے کے دو دن بعد اپنی بے حرمتی کا رونا رو کر ہمیشہ کے لئے چُپ ہو گیا۔ یہ بات کسی دوسرے کی بیٹی کی نہیں یہ بات میرے بچوں کی ہے یہ بات آپ کے بچوں کی ہے۔ مجھے دُکھ ہے کہ ظلم کے خلاف یہ احتجاج صرف قصور میں کیوں ہوا۔ یہ احتجاج میرے شہر میں کیوں نہیں ہوا۔ یہ احتجاج آپ کے شہر میں کیوں نہیں ہوا۔

کیا ہم اپنے بچوں کو سیف لائف نہیں دے سکتے۔ آج احتجاج شروع ہوا تو سیاست دان بھی اپنی سیاست چمکانے اٹھ کھڑے ہوئے۔ بہت زیادہ معذرت کے ساتھ وزیرِ اعلیٰ پنجاب یا پھرچیف جسٹس صاحب کو آج بہت دیر کے بعد یاد آئی۔ اگر چیف جسٹس صاحب پہلے ریپ کیس پر ازخود نوٹس لے لیتے تو آج بارہویں ننھی کلی مسلے جانے سے بچ جاتی۔ ایک ہی شہر کی گیارہ کلیاں نہ مرجھاتیں۔ اب تو ہم لوگ نوحہ پڑھنے والوں میں شامل ہیں۔ زمین پھٹی نہ آسمان گرا۔

بد بخت لوگ ظلم ڈھاتے رہے اور حکمرانوں کے اونچے محلوں تک رونے کی آواز نہ جا سکی۔ چیف جسٹس صاحب نے اب نوٹس لیا ہے تو اب ان سے درخواست ہے کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ آئندہ کوئی بھی زینب نہ بنے تو اس گھناؤنے جرم کے مجرمان کو قید خانے کی سلاخوں کے پیچھے نہ ڈالا جائے بلکہ ایسے مجرمان کو سنگسار کیا جائے۔ پورے شہر کو اکٹھا کر کے مجرموں کو سرِ عام سزا دی جائے۔ تاکہ آئندہ کوئی بھی یہ ظلم کرنے کی جرات نہ کرے۔ یہاں ایک بات یہ بھی لکھتی چلوں کہ وہ نہ ہو دنیا دکھاوے اور عوام کے پریشر پر سیکورٹی ادارے کسی بے گناہ کو کو پکڑ لیں۔

کہ ایسا میرے شہر میرے علاقے میں ہو چکا۔ وہ بھی پانچ سالہ ننھی معصوم کلی تھی۔ یہی جُرم ہوا ظالم نے یہ کھیل رچایا بچی مر گئی درندہ بچ گیا۔ عوام کا پریشرتھا پولیس نے دو بے گناہ بھائیوں کو پکڑ لیا۔ ظلم کے ساتھ ایک اور ظلم ہوا۔ لیکن پولیس کو احساس تک نہ ہو۔ مجرم باہر دندناتا رہا۔ دو سال بعد جا کے ہماری بہادر پولیس کو پتہ چلا کہ اصل مجرم کون ہے۔ سو وہ نہ ہو کہ اب سوئی ہوئی پولیس اتنی ایفی شینسی دکھا ئے کہ ہمیشہ کی طرح کسی بے گناہ کو پکڑ لے اور اصل مجرم قانون کے رکھوالوں پہ قہقہے لگاتا رہے، ہنستا رہے، مسکراتا رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).