یتیم محکمہ عرف محکمہ پولیس


عموماً کہا جاتا ہے کہ محکمہ پولیس ایک کرپٹ ترین محکمہ ہے جہاں صرف طاقتور کی سنی جاتی ہے، جہاں صرف امیر شہر کا حکم چلتا ہے اور جہاں ناکوں پر سو پچاس کا فارمولا چلتا ہے۔ یہ تمام الزامات اپنی جگہ درست واقعتاً ہر محکمہ کی طرح پولیس میں بھی کالی بھیڑیں بڑی تعداد میں موجود ہیں جو ہر دوسرے شخص سے عیدی وصول کرنے اور ناکہ لگا کر دیہاڑی لگانے کے چکر میں رہتی ہیں، کچھ تھانوں کے سربراہ ایسے بھی ہیں جن کا اگر صرف موبائل ٹیپ کیا جائے تو 90 فیصد جرم کون، کیوں، کیسے اور کب کرتا سب واضح ہو جائے گا۔

مگر محکمہ پولیس ایسا بھی نہیں جیسا ہم سمجھتے ہیں، وہ اہلکار بھی اسی محکمہ کا ہے جو چوبیس چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر تعینات رہتا ہے اور وہ اہلکار بھی محکمہ پولیس کا ہی ہے جسے اپنے محکمہ کے ملازمین پر افسر ان بالا کے حکم پر نہ چاہتے ہوئے بھی عمل کر کے لاٹھی چارج کرنا پڑتا ہے ذرا سوچیئے اگر آپ پولیس اہلکار ہوں اور آپ کو اپنے دوستوں اور ساتھ ڈیوٹی کرنے والے عارضی ملازمین بھائیوں کے پُرامن احتجاج کو منتشر کرنے کے لئے ہاتھ میں ڈنڈا دیا جائے تو نہتے دوستوں اور ساتھیوں پر تشدد کرتے ہوئے آپ کے کیا احساسات ہوں گے۔

اس اہلکار کی حالت پر ترس آتا ہے جو کمانڈ کا حکم مانتے ہوئے اور فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے مذہبی جماعت کے پُرامن احتجاج کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج کرتا ہے اور پھر سوشل میڈیا پر لکھتا ہے کہ ”یا رسول اللہ ہم شرمندہ ہیں“۔ تمام محکموں کی طرح پولیس میں بھی بے شمار اچھے لوگ ہیں جو بدعنوان ملازمین کی وجہ سے بدنام ہو چکے ہیں اور پورے محکمے کا نشان کرپشن بن چکا۔

محکمہ پولیس میں سفارش اور سیاسی مداخلت بھی تمام حدیں عبور کرچکی ہے جس کی وجہ سے جرائم پر کنٹرول کے بجائے پولیس ذاتی انتقام میں زیادہ کار آمد ثابت ہوتی ہے۔ پولیس ملازمین انسپکٹر جنرل سے لے کر سپاہی تک ہر ملازم سیاسی پریشر کی زد میں رہتا ہے۔ ابتدائی معلوماتی رپورٹ ( ایف آئی آر ) درج کروانے کے لئے اور کارروائی مکمل کروانے کے لئے سیاسی کارندے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پولیس ملازمین اگر کسی سیاسی شخصیت کی مرضی کے خلاف کارروائی کریں تو چند لمحوں میں معطلی یا تبدیلی (ٹرانسفر) کا حکم نامہ موصول ہوجاتا ہے۔ محکمہ پولیس کے ملازمین بے چارے ہر وقت انڈر پریشر رہتے ہیں۔ اور سیاسی انتقام کے لئے استعمال ہوتے رہتے ہیں، بلاشعبہ ہر شخص آسانیاں چاہتا ہے اور پولیس ملازمین کے لئے آسانی یہی ہے کہ اعلی تعلقات والوں کی جی حضوری کی جائے۔

محکمہ پولیس میں کرپشن کون کرتے ہیں، بلآخر وہ کون لوگ ہیں جو پورے محکمہ کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں؟ یقیناً یہ سوال ہر عام شہری کے ذہن میں گردش کرتا ہے، کرپشن کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کے پیچھے وزیروں، مشیروں، ممبران اسمبلی اور سرمایہ داروں کے ہاتھ ہوتے ہیں، انہیں پتہ ہوتاہے کہ ہم لاڈلے ہیں اور افسر انِ بالا بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ وہ لوگ تیس گرام چرس پکڑ تو لیتے ہیں اور اخبار میں سرخی بھی لگ جاتی ہے کہ ”فلاں علاقے کے ایس ایچ او کا کھڑاک، منشات فرشوں کے خلاف گھیرا تنگ“ مگر بڑے ڈیلروں کے ہر سودے کی خبر رکھتے ہوئے بھی کھڑاک نہیں کرتے کیونکہ منشات کے بیوپاریوں اور ان کرپٹ افسر ان کے پیچھے ایک ہی ہاتھ ہوتا جسے ہم سیاسی ہاتھ کہتے ہیں۔

اگر کوئی پولیس ملازم کسی سیاسی کھڑپینچ کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ بھی لے تو اس کا تبادلہ کسی ایسے علاقے میں کر دیا جاتا ہے جہاں سے وہ صرف خوابی دنیا سے ہی اپنے گھر کی شکل دیکھ پاتاہے۔ اگر سیاسی شخصیات مصلحت کے تحت اہلکار یا افسر کا ٹرانسفر نہیں کرواتے تو محکمانہ مداخلت سے ترقی رکو ادیتے ہیں اور اہلکار کو ایمانداری کا بخار جلد ہی اتر جاتا ہے اور وہ مفاہمتی پالیسی اپنا کر روایتی نظام میں داخل ہو جاتا ہے۔

سیاسی مداخلت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کے کچھ سال قبل آزادکشمیر کے ہی ایک پولیس اسٹیشن میں ایک سابق وزیر موصوف کے عزیزوں کا پولیس ملازمین سے جھگڑا ہو گیا تو وزیر موصوف نے تھانہ کے پولیس اہلکاران سمیت متعلقہ ڈی ایس پی اور ایس ایس پی کو ”گاڑی کے پیچھے باندھ کر گھسیٹوں گا“ اور ”جوتے ماروں گا“ جیسے جملے کہے اور سینئر سپرینڈینٹ پولیس بچارہ جناب جناب کرتا رہا، کیا کوئی شخص فوج کے کسی حوالدار کو ایسے جملے بول سکتا ہے؟

یقیناً نہیں کیوں کہ ان کا سربراہ یعنی آرمی چیف ان کے سر پر سلامت ہوتا ہے اور وہ ہنگامی صورتحال میں ملک کا بھی سربراہ بن سکتا ہے جبکہ پولیس ایک یتیم محکمہ ہے جس کا سربراہ انسپکٹر جنرل ہنگامی صورتحال میں چند منٹوں میں آسمان سے زمین پر پٹخ دیا جاتا ہے تو کیسے وہ اپنے محکمہ کے ملازمین کا دفاع کرے گا جب اس کی اپنی عزت ہی محفوظ نہیں۔ اگر پولیس کے نظام کو درست کرنا ہے تو عدلیہ اور فوج کی طرح پولیس کو بھی سیاسی مداخلت سے آزاد محکمہ بنانا چاہیے تاکہ قانون کا عمل امیر و غریب دونوں پر برابر ہوسکے۔
اللہ آپ کا اور میرا حامی و ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).