جنوبی پنجاب صوبہ اور سردار اختر مینگل کے خیالات


قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرشہبازشریف نے جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام اور بہاولپور صوبہ بحالی کے حوالے سے حکومت کوجیسے ہی تعاون کی پیشکش کی تو ایوان میں بات کرنیوالوں کا تانتا بندھ گیا، نوازلیگی ارکان اسمبلی کے چہروں پر خوشی عیاں تھی کہ انہوں نے حکومت کوایک بڑی مشکل میں ڈال دیاہے، مطلب اب آیا ”اونٹ پہاڑ کے نیچے“۔ راقم الحروف پریس گیلری میں صحافی اس بات کو نوٹ کررہے تھے کہ وہ ارکان جو قومی اسمبلی میں آمد کے بعد مسلسل خاموش تھے اور مناسب نہیں سمجھاتھاکہ کوئی اپنے حلقے کی عوام جن کے ووٹوں سے منتخب ہوکر یہاں پہنچے تھے، ان کے دکھوں کا تذکرہ بھی کرتے۔

لیکن اب انہوں نے بھی ہاتھ کھڑے کرکے اسپیکر کو متوجہ کرنا شروع کردیا تھا کہ پہلے ان کو بات کرنے کا موقع دیں، ان کا زیادہ حق بنتاہے کیوں کہ وہ کبھی ایوان میں اس سے پہلے نہیں بولے ہیں، مطلب یہ ان کا پسندیدہ سبجیکٹ ہے کیوں اس کے ساتھ وہ زیادہ دور نہ بھی جائیں یہ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کی پچھلی دو حکومتوں میں جن کی مدت دس سال بنتی ہے، اس میں ہاکی کے مشہور کھلاڑی کلیم اللہ اور سمیع اللہ کی طرز پر ایک دوسرے کو بال دے کر سیاسی میدان کو انجوائے کرتے رہے ہیں لیکن ان عظیم کھلاڑیوں کی طرح گول کرکے عوام کی خواہشات کے مطابق پنجاب میں جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام اور بہاولپور صوبہ کی بحالی کے لئے کوئی عملی کام نہیں کیا۔

اسپیکرقومی اسمبلی کے لئے اس صورتحال میں ایوان چلانا یوں مشکل ہو رہا تھا کہ ایک طرف حکومتی بنچوں پر موجود ارکان اسمبلی اوروزیروں کی فوج ظفر موج لیگی لیڈر شہبازشریف سے سکور برابر کرنے کے لئے بے چین تھی تو دوسری طرف اپوزیشن بنچوں سے پیپلزپارٹٰی جیسی بڑی جماعت بھی میدان میں آ گئی تھی کہ وہ بھی جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کے لئے کسی بھی پیشرفت کی صورت میں ساتھ دے گی، نوازلیگی اور پیپلزپارٹٰی لیڈر شپ اور ارکان کی اس کارروائی کا مقصد ایک ہی تھا کہ پنجاب میں جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام اور بہاولپور صوبہ بحالی پر سیاست کرنے میں ساتھ والی نشت پر موجود حکومت کو بیک فٹ پر دھکیل دیاجائے۔

دلچسپ صورتحال ایوان میں یوں بھی تھی کہ حکومت کے بنچوں پر اس معاملے پر اختلاف شدت کے ساتھ دیکھنے کو مل رہاتھا، بہاولپور اور ملتان کے ارکان اسمبلی پارٹٰی پالیسی سے بالاتر ہوکر جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام اور بہاولپور صوبہ بحالی پر تقسیم ہی نہیں ہوگئے تھے بلکہ ایک دوسرے پر الزامات بھی لگا رہے تھے۔ بہاولپورکے ارکان اسمبلی کا کہنا تھا کہ وہ جنوبی پنجاب صوبہ کی شکل میں ملتان کی سربراہی قبول نہیں کریں گے اور ملتان نے ہمارا حق مارا ہے، ہمارا صوبہ بہاولپور تھا اور اس کو بحال کیا جائے۔

ادھر نواز لیگی لیڈر و نیب کے ملزم شہبازشریف کی طرف سے پنجاب کی تقسیم پر تعاون کا حکومت کو باونسر مارنے کے بعد قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام اور بہاولپور صوبہ بحالی پر تقریر کرنیوالوں میں جہاں ملتان اور بہاولپور کے ارکان اسمبلی شامل تھے، وہاں پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل بھی میدان میں آگئے، اخترمینگل بلوچستان کے وزیراعلی رہ چکے ہیں۔ بلوچستان کی سیاست میں اہم حیثیت رکھنے کے علاوہ قومی سیاست میں بھی ان کی خاص پہچان ہے، مشکل وقت کا سامنا بھی کرتے رہے ہیں، انہوں نے بھی جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام اور بہاولپور صوبہ بحالی پر اظہار خیال کرنے کے لئے ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری سے رجوع کیا، قاسم خان سوری کی طرف اجازت ملنے کے ساتھ ہی بلوچستان نیشنل پارٹیٰ کے سربراہ سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ آج جو نئے صوبے اور جنوبی پنجاب کے حوالے سے بات چیت ہورہی ہے، موقع کی نزاکت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، ہم نے بھی چاہ کہ ہم بھی اپنا نقط نظر یہاں پیشں کریں ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھیں تو اس ملک میں پانچ صوبہ ہوئے کرتے تھے، بنگلہ دیش، پنجاب، سندھ، این ڈبلیو ایف پی (خبیرپختوانخواہ) اور بلوچستان۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم پانچ سے چھ کی بجائے ہم چار کیوں ہوگئے ہیں؟ کیا نئے صوبے بنانے سے ہم پسماندگی کا خاتمہ کریں گے؟ کیا نئے صوبے بنانے سے صرف ہم لوگوں میں پائی جانیوالی اس احساس محرومی کو ختم کریں گے؟ میں قطعاً یہ نہیں کہتا کہ ہم نئے صوبے بنانے کے حق میں نہیں لیکن جو صوبے بنے ہیں۔ کیا انہی صوبوں کو ملا کر کے ہم نے ایک صوبہ کی بالادستی کو قائم کرنے کے لئے ون یونٹ قائم نہیں کیا تھا۔ اور اس ون یونٹ کے خلاف تحریک چلانے والوں کو قلی کیمپ کے اذیت خانوں میں کوڑے نہیں مارے گئے تھے اور اس ایوان میں وہ لوگ بھی بیٹھے ہوں گے، جنہوں نے ون یونٹ کی حمایت بھی کی ہوگی۔

آج وہ سرخرو ہیں؟ چلے جاتے ہیں، لیکن جنہوں نے صعوبتیں برداشت کیں، جنہوں نے جیلیں کاٹیں، جنہوں نے پھانیساں چڑھیں، وہ آج بھی پاکستان کی تاریخی کی کتابوں میں غداروں کے القابات سے نوازے جاتے ہیں۔ صوبوں کو اخیتارات دیے جائیں، جتنے بھی آپ صوبے بنائیں گے لیکن جب تک ان کے اختیارات نہیں دیے جائیں، بنگلہ دیش کیوں الگ ہوا ہم سے؟ کون ہے اس کا ذمہ دار ہے؟ ، کس کی انا؟ کس کی ہٹ دھرمی؟ یا کس کی اپنی بالادستی یا اپنی میجارٹٰی کو ثابت کرنے کے لئے اپنا ایک بڑا حصہ، اپنے سے کاٹ کر، اور بدقسمتی یہ ہے انسان کی ایک زمین کا ٹکرا چھین جاتا ہے تو وہ ماتم کدہ ہو جاتا ہے۔

اس ملک کا سب سے بڑا حصہ الگ کیا گیا، اور یہاں شادیانے بجائے گئے، یہاں پر جشن منایا گیا، لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں کہ اچھا ہوا کہ اس سے ہماری جان چھوٹی، آج جو شورش ہے چاہے وہ بلوچستان میں ہے، چاہے وہ سندھ میں ہے۔ وہ کیوں ہے؟ کیونکہ ان صوبوں کو وہ اخیتارات نہیں مل رہے جن کا 1947 میں اس ملک کی بنیاد رکھتے ہوئے ان کے ساتھ وہ معاہدات کیے گئے تھے۔ ان معاہدات کے انخراف میں بنگلہ دیش الگ ہوگیا۔

پاکستان اس میں کوئی شک نہیں ایک کیثر القومی ملک ہے، اس میں سندھ میں رہنے سندھی، بلوچستان میں رہنے والے بلوچستانی، پنجاب میں رہنے والے پنجابی یا سرائیکی۔ خبیرپختوانخواہ میں رہنے والے ہمارے پشتون، نئے صوبہ بھی بنایا ہے گلگت بلتستان، اس کے بھی تو اختیارات دیکھ لیں، کتنے اختیارات ہیں، کشمیر کو تو ہم آزاد کشمیر کہتے ہیں لیکن اس کشمیر کے اخیتارات ہمارے میونسپل کمیٹی کے اخیتارات سے بڑے نہیں ہوں گے۔ یہ حقائق ہیں۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا۔ ہم بالکل، چاہے وہ جنوبی پنجاب کا صوبہ ہو یا اس کا کوئی اور نام لیاجاتاہے لیکن جب تک کہ صوبوں کی ازنوسرحد بندی نہیں ہوتی۔ ہمارے بلوچستان کا ایک بڑا حصہ ایران کو دے دیا گیا تھا، کیا آپ کے 1973 کے آئین میں یہ بات ہے یا آپ کے 1962 کے آئین میں یہ بات ہے، کیا ہمارے ایوان میں بیٹھے ہوئے ان لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ ایک ڈکیٹر نے، قلم کی ایک جنبش سے میر جاوا کا علاقہ بلوچستان کا ایران کے حوالے کر دیا۔ جب چاہیں کسی کو ایک ٹکڑا دیدیں، جب چاہیں کسی کوایک حصہ دیدیں۔ اور بلوچستان کا وہ حصہ جو تاریخی حوالے سے ڈیرہ غازی خان اور راجن پور جو بلوچستان کا حصہ رہا ہے، خان قلات کے ماتحت رہاہے۔ اس کو کس طرح صوبہ پنجاب میں شامل کیا گیا۔ کہنے تو بلوچستان کے سردار بڑے ظالم ہیں، وہ ترقی کے خلاف ہیں، وہ ہر ترقی کی راہ میں رکاوٹ کھڑٰ ی کرتے ہیں، جب لیکن ان کو اپنی ضرورت پڑی، انہی بیچارے سرداروں سے معاہدات کرکے ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کو پنجاب میں شامل کر دیا گیا۔ جب ان کی ضرورت پڑتی تھی، ان سرداروں کو پگڑیاں بھی پہنائی گئیں، ان کے سامنے ڈھول اور تالیاں بجائی گئیں، جب ان کی ضرورت ختم ہوگئی اب جا کے ان کو کہاں پہ پھینک دیا۔ اگر ہوسکے جس طرح کہ اس میں اتفاق رائے پیدا کرنے ہوں گے، تمام جو اسیٹک ہولڈرہیں، وہ چاہتے ہیں کہ وہ حصہ جو بلوچستان سے علیحدہ کیے گئے، یہ کوئی آئینی ترمیم کے ذریعے نہیں کیے گئے۔ معاہدات کے ذریعے، معاہدات ذریعے ایک حصہ آپ نے ایران کو دیدیا بلوچستان کا۔ کچھ حصے آپ نے پنجاب مٰیں شامل کردیے اور کچھ سندھ میں شامل کردیے۔ اگر واقعی حکمران اس پر نیک نیت ہیں، آئیں تو بیٹھیں، ہم بیٹھنے کے لئے تیار ہیں۔ ہمارا جو حصہ کاٹ کر دوسرے صوبہ میں شامل کیا گیا ہے، اس کو واپس بلوچستان میں شامل کیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).