جاوید لاہوری ”میراثی“ نہیں کہلانا چاہتا تھا


جاوید صرف ٹورسٹ گائیڈ نہیں اک استاد بھی ہے، موسیقیت اس کے خمیر میں شامل ہے، وہ لے اور آواز سے بات کا اصل مطلب بھانپ لیتا ہے۔ جاوید صرف لاہور نہیں قومی اور بین الاقوامی ٹورسٹس کے ساتھ پوری پاکستان کی خاک چھان چکے ہیں۔ اک طرف خنجراب، کیلاش، ناران کاغان اور سوات تو دوسری طرف ٹیکسلا، ہڑپا، چولستان، تھرپارکر، موئن جودڑو سے لے کر سندھ ساگر کے ساحل تک پورے پاکستان کا چکر لگا چکے ہیں۔ لانگ ٹور جب بھارت کے لال قلعے اور شاہی مسجد پہنچے تو انہوں نے لاہور کے شاہی قلعے اور بادشاہی مسجد کو ذہن میں رکھ کر دیوان عام، زیر زمین جانے والے راستے اور واش روم تک بغیر کسی گائیڈ کی مدد سے ڈھونڈ لیے۔

25 سالوں میں ہیرامنڈی اور اس سے منسلک گلیوں کا ماحول اور مزاج کافی تبدیل ہوچکا ہے۔ ”میراثی“ لفظ بھی اب انگریزی میں ٹرانسلیٹ ہوکر ”آرٹسٹ“ بن چکا ہے۔ اس لئے جاوید لاہوری کی رائے بھی کافی تبدیل ہوچکی ہے۔ ”میرے والد استاد بلھے خان مجھے سمجھایا کرتے تھے کہ بیٹا اک بات سن لو کہ میراثی وہ ہوتا ہے جو کسی میراث کا وارث ہو، پیسا اور اقتدار شخصیت کا اصل معیار نہیں، کبھی نہیں۔ یہ لوگ جو خود اپنے نسل اور شجرے کا پتا کرنے ہمارے پاس آتے ہیں اور ہماری بات پر من و عین یقین بھی کرلیتے ہیں، ان کا ہم سے کیا مقابلہ۔ تاریخ میں صرف وہ لوگ زندہ رہتے ہیں، جو کسی میراث کے وارث ہوتے ہیں۔“

ساری عمر طبلہ نہ سیکھنے کے باوجود جاوید لاہوری کا کہنا ہے کہ ”اب میں کسی غیر ملکی اعلی شخصیت کے ساتھ گائیڈ کے طور پر کام کرتا ہوں تو یہ بات بتاتے فخر محسوس کرتا ہوں کہ میں اک طبلہ نواز بلھے خان میراثی کا بیٹا ہوں۔ مجھے واقعی فخر ہے اس بات پر کہ میں اس شہر لاہور کی تمام تر ثقافتی روایات اور تاریخی میراث کا وارث ہوں۔“

جاوید لاہوری اس وقت تک ترکی اور تاتارستان سمیت دیگر ممالک کے صدور سمیت کئی ممالک کے سفارتکاروں، بھارتی فلم اسٹار سید نصیرالدین شاہ سمیت پاکستانی اسٹارز، ریسلرز، تاجروں، سیاحوں اور دیگر طائفوں کے ساتھ گائیڈ کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ اس کا خیال ہے کہ جس طرح اس کے والد موسیقی سے ملک کا نام روشن کر رہے تھے اسی طرح وہ بھی باہر سے آنے والوں کے سامنے ملک کا روشن چہرا دکھا کر اس دیس کی خدمت کر رہا ہے۔

دوسری طرف ”گلی جوہریاں“ میں اب کوئی جوہری نہیں، نہ کوئی جوہری کی دکان، اب وہاں موسیقی کے آلات کی دکانیں سج گئیں ہیں۔ ہر شام تھک کر جب جاوید لاہوری واپس گھر جاتا ہے تو دکانوں کی منڈیر پر سجے طبلے اب بھی اس کا دھیان اپنی طرف کھینچ لیتے تھے۔ ”اب جب میں خود اپنی خواہش کے مطابق اپنے دو بیٹوں محمد عبداللہ اور زین علی کو ٹورسٹ گائیڈ بننے کے گُر سکھا رہا ہوں تو مجھے اب افسوس ہوتا ہے کہ کاش میں بابا کی بھی خواہش پوری کرلیتا اور طبلہ بجانا سیکھ لیتا، بھلے نہ بجاتا، میراثی نہ بنتا مگر سیکھ لینے میں کیا حرج تھا۔“

جاوید لاہوری نے پھر اک کمال فیصلہ کیا کہ اپنے دونوں بیٹوں جو کالج میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں کو ٹورسٹ گائیڈ کے ساتھ ساتھ موسیقی کا فن سیکھنے کے کام پر بھی لگا دیا ہے۔ اس کا بڑا بیٹا محمد عبداللہ کمال کا طبلہ بجاتا ہے جبکہ زین علی تو کبھی کبھار محافل میں گلوکاروں کے ساتھ ہارمونیم پر سنگت بھی کرتا ہے۔ تعلیمی میدان میں بھی دونوں نوجوان اچھے نتائج لے رہے ہیں۔

”اللہ پاک نے بہت عزت دی ہے، دنیا کی مشہور انگریزی اخبار گارڈین اور اپنی کئی قومی اخبارات میں میرے لکھے ہوئے اور میرے حوالے سے کئی مضامین شایع ہو چکے ہیں، مستنصر حسین تارڑ صاحب اپنے کتاب میں کئی بار میرا ذکر کر چکے ہیں۔ میرے لئے وہ دن بھی کافی یادگار تھا جب مجھے TED Talk میں اسپیکر کے طور پر مدعو کیا گیا۔ مگر یہ سچ ہے کہ مجھے سب سے زیادہ سکون اس وقت ملتا ہے جب میرا بیٹا محمد عبداللہ طبلہ بجاتا ہے اور میں گھر کے صحن میں آنکھیں بند کر کے طبلہ سنتا ہوں۔

یہ میراثی پن بھی کمال چیز ہے، دنیا کے کئی مسائل اور معاملات سے مکتی دی دیتی ہے۔ جاوید لاہوری صرف گلی جوہریاں نہیں بلکہ لاہور کا وہ جوہر نایاب ہے جسے اک خاص جوہری کی نظر کا انتظار ہے، بقول شاعر
تو جوہری ہے تو تجھے زیبا نہیں یہ گریز
مجھے پرکھ، میری شہرت کا انتظار نہ کر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2