کراچی، موسمی تبدیلی اور سبزے کا فقدان


یوں تو کراچی میں کبھی بھی شدید سردی کے آثار نہیں دیکھے گئے البتہ زمانہ طالب علمی میں ہفتہ، دس دن کی مہمان سردی کے مزے سے ضرور لطف اندوز ہوئے ہیں۔ گذشتہ پانچ، چھ سالوں سے تو یہ حالت ہے کہ کمبل اوڑھنے کے لئے پنکھا چلانا پڑتا ہے۔ دفاتر میں اے سی آن ہی رہتے ہیں۔ صبح سویرے تو جرسی پہن لی جاتی ہے تاہم دوپہر تک وہ کرسی کی پشت ڈال دی جاتی ہے۔ مونگ پھلی کھانے کے لئے کمرے میں لگے پنکھے کی اسپڈ کو بڑھانا پڑتا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ موسمی تبدیلی ہے۔ اگرچہ موسمی تبدیلی کے خطرات پوری دنیا کو لاحق ہیں۔

گلوبل وارمنگ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق موسمی تبدیلی کے باعث سیلاب اور خشک سالی میں اضافے کے ساتھ ناقابل اعتبار، متضاد موسم انسانی رہن سہن اور فصلوں کی تباہی کا باعث ہو سکتے ہیں۔

اس خطرے سے نمٹنے کے لئے مختلف ممالک بہتر منصوبہ کر رہے ہے جبکہ پاکستان میں بھی پنجاب اور کے پی کے میں موسمی خطرات سے نبردآزما ہونے کے شجر کاری کو فروغ دیا جا رہا ہے جبکہ سندھ میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ خاص طورپر صوبے کا درالحکومت کراچی دیگر مسائل کے ساتھت تیزی سے اوپر جاتے ہوئے موسمی درجہ حرارت کی ستم ظریفی کا بھی شکار ہے۔ جس کی بدولت اب کراچی میں بارہ ماہ گرمی کا راج رہتا ہے، یعنی گرمی کے ماہ میں شدید جبکہ سردی کے دنوں میں کم گرمی اس شہر کی مستقل مکین ہے۔

کراچی میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ یہاں کا بے ہنگم ٹریفک، گاڑیوں، فیکٹریوں، ملوں اور کارخانوں کی چمنیوں سے نکلتا دھواں، ماحول دشمن طریقوں سے تعمیر ہونے والی بلند و بالا عمارتیں اور درختوں کی بے دریغ کٹائی ہے۔

اسی وجہ سے سن 2015 میں پہلی بار شہر کا درجۂ حرارت معمول سے کہیں زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔ سمندری ہوائیں تھم جانے سے شہر میں آگ برسنے لگی۔ کراچی والوں نے پہلی مرتبہ ’ہیٹ ویو‘ کا نام سنا۔ تین دنوں میں 1200 افراد شدید گرمی کی نذ ر ہوگئے۔ شہر کا درجۂ حرارت 45 ڈگری سے چلا گیا اور گرمی کا 37 سال پرانا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔

ماہرین کے مطابق اس بات کو اہمیت دینا ہوگی کہ ہر رہائشی اسکیم اور منصوبے میں شجرکاری کے لیے بھی مناسب جگہ لازمی مختص کی جائے۔ حکومت کی طرف سے کوئی بھی منصوبہ اس وقت تک منظور نہ کیا جائے جب تک اس میں درخت اور سبزے کے لیے بھی مناسب جگہ نہ ہو۔ ”

گلوبل وارمنگ کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ ملک کی عسکری قیادت نے بھی اس سلسلے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ عوام میں سرسبز پاکستان کی آگاہی کا بہترین فارم سوشل میڈیا ہے۔ جس کے استعمال سے مختلف نوجوان اس مہم کو فروغ دے رہے ہیں۔ اسی تناظر میں چند روز قبل سوشل میڈیا پر کچھ تصاویر میری نظروں سے گزریں جو کہ شجر کاری مہم کے متعلق تھیں۔ اس مہم کے ذریعے سے شہریوں میں شعور بیدار کر نا ہے۔ یہ اتنا مشکل کام تو نہیں ہے کراچی کے موسم کی بہتری کے لئے ہم کم از کم اتنا تو کرسکتے ہیں کہ ہم گھروں میں، گملوں میں باغیچوں میں، دالانوں میں، چھتوں پر، اسکولوں، درسگاہوں، سڑک کنارے پودے لگائیں۔ پودے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں جس کی بدولت ہمیں صحت مند ماحول مل سکتا ہے۔ طویل عرصے سے بارش بھی کراچی سے روٹھ گئی ہے۔ پودوں اور درختوں کی وجہ سے بارشیں بھی بر وقت اور اچھے تناسب میں ہوتی ہیں۔

دور حاضر میں ہر چیز کی دستیابی چند روز میں ممکن ہے۔ اب کپڑے، جوتوں، میک اپ کا سامان، گھریلو، پلاسٹک و الیکٹرانک اور دیگر اشیا کی خرید وفروخت سمیت پودوں کی بھی آن لائن بلاکنگ کراکے گھر بیٹھے وصول کیا جاسکتا ہے۔

پودے والا ڈوٹ کام کے ذریعے آپ اپنے ماحول کو صحت مند بنا سکتے ہیں۔ پروجیکٹ ہیڈ حرمین فیصل کا کہنا ہے کہ ہمارا ہم نے ابتدائی طور پر کراچی کی فضاؤں کو پرفضا بنانے کا عزم کیا ہے۔ اس کے بعد ہمارا رخ اندرون سندھ کی جانب ہوگا جبکہ ہمارا وژن پورے پاکستان کو سرسبز و شاداب کرنا ہے۔ پودے والا ڈوٹ کام کا مقصد کاروبار نہیں ہے بلکہ ہم کراچی سمیت پورے پاکستان کو موسم کی ستم ظریفی سے بچانے کے لئے کمر بستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نہ صرف پودے والا ڈوٹ کام بلکہ شہر کے مختلف مقامات پر پودوں کا اسٹال لگا کر مناسب داموں میں فروخت کر رہے ہیں جس کا عوام اچھا رسپانس دے رہے ہیں۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ پودے لگانا ہی اہم نہیں ہے بلکہ ان کا تناور درخت بننا بھی بہت ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).