حامد خان کا انکشاف


استاد محترم حامد خان کا ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ ٹھیک گیارہ سال پہلے راقم نے پنجاب یونیورسٹی لا کالج کے ایل ایل ایم پروگرام میں داخلہ لیا۔ اس وقت یہ پاکستان کا واحد تعلیمی ادارہ تھا جہاں پر ملک کے مایہ ناز وکلا اور قانون دان پڑھاتے تھے۔ ان ناموں میں حامد خان، خالد رانجھا، انعام الحق، جسٹس محمد عارف، جسٹس اللہ نواز، ابوالحسن نجمی سرفہرست ہیں۔

ان دنوں وکلا تحریک اپنے عروج پر تھی۔ حامد خان صاحب ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے وکلا کے ایک بڑے گروہ کے سربراہ ہیں جو عرصہ دراز سے بار کی سیاست کا لازم و ملزوم جز ہے۔ اس وقت بھی یہ بیچ کھیت تھے۔ بدھ اور ہفتے کو لا کالج میں پڑھانا، پھر ایک دن ڈی ایم جی کی اکیڈمی میں جانا اور ملک بھر میں منعقد ہونے والی بڑی بڑی ریلیوں اور جلسوں میں شرکت کرنا معمول تھا۔ رات کو ٹی وی پر کبھی کراچی میں انہیں تقریر کرتے ہوئے دیکھا تو اگلے دن گیارہ بجے کلاس میں بھی بروقت پڑھانے آئے۔

دو سال ہمیں سعادت نصیب رہی۔ ہم تین گھنٹے کی کلاس کے بعد انہیں کالج کی پارکنگ تک الوداع کہنے آتے۔ سفید رنگ کی ہونڈا سوک خود چلا کر آتے۔ اور ہر دفعہ واپسی پر ہم سب کو ہاسٹل تک ڈراپ کرنے کی دعوت دیتے۔ بے پناہ علم، حد درجہ کی عاجزی اور دل موہ لینے والا شفیق رویہ۔ پہلی کلاس میں ہی انہوں نے کہہ دیا کہ کوئی سوال فضول نہیں ہوتا، سوال سیکھنے کی ابتدا ہوتی ہے اس لئے سوال کرنے سے ججھکنا نہیں۔

ان دنوں ان کی کانسٹیٹیوشنل لا پر ایک ضخیم کتاب شائع ہوئی۔ حسب عادت راقم نے اس میں ایڈٹنگ کی غلطیاں نکالیں۔ کئی دفعہ کلاس کے بعد ان کے پاس جا کر غلطیوں کے حاشیے دکھائے۔ وہ ہر بار شکریہ کہتے۔ ایک بار تو انہوں نے کہا کہ اگر ساری کتاب کے ساتھ یہ سلوک کر دو تو اگلے ایڈیشن کے دیباچہ میں آپ کا نام بھی آئے گا۔ اس کلاس میں مجھ سے بہتر پڑھنے والے اور سمجھنے والے تقریبا درجن بھر طلبا و طالبات تھے۔ قانون اور سیاست پر بھی کتنی ہی دفعہ گفتگو ہوئی لیکن کبھی ایسا تاثر نہیں ملا کہ وہ صرف ایک پارٹی کے موقف سے اتفاق رکھتے ہیں۔ سچ کو سچ اور جھوٹ کو غلط کہتے ذرا بھی توقف نہ کرتے۔ کتنی ہی باتیں ہیں جو ہماری یادداشت اور لاشعور میں رچی بسی ہوئی ہیں، ان میں سے ایک بھی ایسی نہیں جس سے کبھی لگا ہو کہ حامد خان طالب علموں سے بات کرتے ہوئے کسی فرد، ادارے، علاقے، مذہب یا ذات کے بارے میں متعصب ہوئے۔

جو کچھ کلپ میں سننے کو ملا، اس کا تذکرہ انہوں نے گیارہ سال پہلے بھی ایک کلاس میں کیا جب موضوع بحث عدلیہ کی آزادی تھا۔ اس وقت وہ عدلیہ کی بحالی کے لئے جدوجہد کر رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ عدلیہ کی بے توقیری میں بہت سے ججز کا ہاتھ بھی ہے۔ یہ آئے روز وکلا کی غنڈہ گردی انتہائی قابل اعتراض اور افسوس ناک امر ہے لیکن جب بڑی بڑی عدالتوں میں بیٹھے ججز انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں بلکہ دن دیہاڑے انصاف کا قتل ہوتا ہے۔ تعلق، واسطے، سیاسی وابستگیاں نبھائی جاتی ہیں، ٹاوٹ رکھے جاتے ہیں، دھن سمیٹا جاتا ہے تو بار میں موجود مہذب آوازیں بھی دب جاتی ہے۔ نقصان پوری قوم کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پھر چھوٹے وکلا بھی دھونس گردی کرتے ہیں۔ ادارہ جام ہو جاتا ہے۔

پاکستان کی قانون و انصاف کی تاریخ اور اس میں مختلف افراد کا کردار اور واقعات کا حوالہ وہ اکثر دیا کرتے تھے۔ مضمون کا تقاضا تھا۔ زیادہ تر انہوں نے چشم دید واقعات اور ذاتی تجربات اور مشاہدات ہی بتائے۔ اے کے بروہی، خالد ایم اسحاق اور محمود قصوری سے لے کر دور جدید کے جید وکلا، ججز اور ماہرین کی انصاف کے ایوانوں میں روش اور کنڈکٹ کے حوالے سے مہذب انداز میں بات کرنے سے وہ کبھی بھی گریزاں نہ تھے۔

حامد خان 1996 سے تحریک انصاف سے منسلک ہیں۔ لیکن اتنی قدآور شخصیت ہیں کہ نئے سیٹ اپ میں وزیری مشیری ان کے لئے چھوٹی پڑتی ہے اور باقی عہدے جملہ جماعت کے لئے بھاری پڑتے ہیں۔ کارنیلیس لین اینڈ مفتی کے حصہ دار ہیں جو شائد ملک کی سب سے بڑی لا کمپنی ہے۔ جس کی پیٹھ پر ہاتھ رکھتے ہیں وہ سپریم کورٹ بار کا صدر بن جاتا ہے۔ کتنے ہی ان کے شاگرد سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز ہیں۔ ان کی زبان پر اپنی ہی حکومت کے وزیر موصوف کا نام آ جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ وہ چھپن چھپائی پہلے بھی نہیں کھیلتے تھے۔ جو ہے وہ انہوں نے تاریخ کا حصہ بنا دیا ہے۔

یہ چھوٹی سی بات اس لئے بھی یاد رہ گئی کہ اس سے پہلے ہمارا نصراللہ وڑائچ مرحوم (ایڈوکیٹ سپریم کورٹ) کے چیمبر سے بھی واسطہ تھا۔ کئی کیسز میں وہ بھی اپنے منشی سے کہتے کہ “اے پارٹی بہت کاہلی اے۔ ایہناں نوں فواد کول بھجوا دے۔” نصر اللہ وڑائچ صاحب ضلع کونسل گجرات کے چیرمین اور پاکستان بار کونسل کے ممبر رہے ہیں۔ بڑے پائے کے وکیل تھے۔ دیوانی مقدمات میں ججز بھی ان سے رہنمائی لیتے۔ لیکن ہم نے ان کی عقل و فراست کو ایک تیس پینتیس سال کے بہروپیے کی عیاری کے سامنے بے بس پایا۔

یہ چھوٹی بات نہیں۔ حکومت کے سربراہ کے پاس ٹی وی دیکھنے اور اخبارات پڑھنے کا ٹائم نہیں ہوتا۔ مہینوں، دنوں اور گھنٹوں تک کا شیڈول طے ہو تا ہے۔ وزیر، مشیر اور دوست احباب ہی اس کے کان اور آنکھیں ہوتے ہیں۔ یہ اسے وہی دکھا پاتے ہیں جو انہیں نظر آتا ہے۔ انصاف کی دلالی کرنے والے کے پاس تو خوشآمد، چاپلوسی، مکاری، عیاری اور ریا کاری ہی ہوتی ہے۔

بس وہ عادل شہر کو طاقت کے نشے میں ایسا اتارتا ہے کہ سب دلیلیں پسپا ہو جاتی ہیں۔ جانے کہاں کہاں سے اپنا تن من دھن لٹا کر متزلزل فریادی اس کی جھولی میں آ گرتے ہیں۔ ایمانداری کھڑکیوں سے جھانکتی رہتی ہے، بدعنوانی دبے پاوں انصاف کے ایوانوں میں داخل ہوتی ہے اور منصف کے قلم کی سیاہی میں گھل جاتی ہے۔ سائل جاگتی آنکھوں سنتے کانوں گھائل ہوتے ہیں اور جم غفیر میں گھل مل جاتے ہیں۔ طاقت کے ایوانوں میں پہنچ کر انصاف کے سوداگروں کو پہچان پانا آسان تھوڑے ہی ہے۔

وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں

اُسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ شاہبازی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).