قبیح رسومات!!


دنیا کے ہر معاشرے میں کچھ رسوم و رواج کا چلن رہتا ہے۔ کہیں سخت تو کہیں نرم، کہیں منصافانہ و معتدل تو کہیں انتہائی ظالمانہ اور جاہلانہ رسوم نافذ ہوتی ہیں۔ رسوم و رواج بنیادی طور انسانوں کے مرتب کردہ کچھ حدود و قیود کا نام ہے۔ ایسی معاشرتی، سماجی، گھریلو اور علاقائی پابندیاں اور قدغن جو انسانوں نے اپنے اپنے وقت اور زمانے کے ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائیں اور نافذ کیں مگر چونکہ انسانی عقل کوتاہ، محدود اور متعصب ہے اس لئے کسی بھی معاشرے میں انسانی رسوم و رواج دیرپا طور پر کبھی مفید نہیں رہے ہیں۔ بدقسمتی سے برصغیر خصوصاً پاک و ہند میں عجیب عجیب طرح فرسودہ اور قبیح رسوم صدیوں سے رائج رہی ہیں اور حیرت ہے کہ آج کے اس جدید دور میں بھی انہیں فالو کیا جاتا ہے۔ ان قدیم اور فرسودہ ہندوانہ رسومات آج بھی پاکستان کے شہری معاشروں میں بالعموم اور دیہاتی معاشروں میں بالخصوص سے رائج ہیں۔

ہمارے بالائی سوات وادی بحرین و کالام اور گرد و نواح میں بھی شدت سے یہ ظالمانہ رسومات نافذ ہیں۔ ان بے معنی رسومات کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کے زد میں ہمیشہ غریب اور کمزور طبقے آجاتے ہیں اور زندگی کے اکثر معاملات میں پس کر رہ جاتے ہیں۔ جیسے علاقے کے با اثر افراد اور طاقتور قوموں کی غلامی، ان کا بیگار، اور عورتوں پر ستم و مظالم ان رسومات کی خصوصیات ہیں۔ لیکن اس سب کے برعکس وادی بحرین میں ایک عجیب طرح کی رسم رائج ہے جو ہر لحاظ، ہر پیمانے اور ہر اصول کے رو سے انسانی حقوق کی سراسر منافی اور خلاف ورزی ہے۔ جیسے کہ شادی بیاہ کے لئے جہیز کے نام پر پورے خاندان کو گروی بنا دینا اور گھر کے ایک شخص کی شادی میں ان کی برسوں کی جمع پونجی سے انہیں محروم کردینا سرفہرست ہے۔

ایک غریب شخص جو بمشکل محنت مزدوری سے اپنی فیملی کے اخراجات کا بوجھ اٹھا پاتا ہے جس کے ہاں چار چھ بچے ہوتے ہیں۔ سوچیے وہ شخص اپنے ایک بیٹے کی شادی کے لئے لاکھوں کے زیوارات، لاکھوں کے فرنیچر، ڈھیروں ملبوسات، گھر کی تعمیر، شاندار برات و شادی کا پرتکلف کھانا سے لے کر دلہن کے پورے خاندان، رشتہ داروں اور اقارب پر مال لٹانا کیسے افورڈ کرسکتا ہے؟ کیا یہ کسی ناخواندہ مزدور، معمولی سرکاری ملازم، یا چھوٹا دوکاندار و زمیندار کی بس کی بات ہے؟

لیکن بھلے آپ مرو یا جیو آپ کو تو یہ رسوم بجا ہی لانے ہیں چاہے باپ دادا کی زمین بیچو، اپنے گردے نکال کر بیچو یا اپنے خاندان کو قرض کی دلدل میں دھنسا دو لیکن آپ کو بیٹے کی شادی کے لئے لاکھوں روپے اڑانے ہی ہوں گے۔ جہاں، جس طرح سے بھی رقم حاصل کرو، یہ آپ کا مسئلہ ہے معاشرے کو اس سے کوئی غرض اور سروکار نہیں رہتا ہے۔

اس کے برعکس دین اسلام جو ہمارا مذہب ہے، اس کے الہی احکامات اگر دیکھیں تو اس میں قطعاً ان قبیح اور غیر ضروری رسومات کی گنجائش نہیں نکلتی، بلکہ اسلام سراسر جہیز کو حرام قرار دے کر اس کی مذمت کرتا ہے اور شادی سے لے کر عام سماجی معاملات میں انتہائی سادگی، کفایت شعاری اور آسانی کی ہدایت کرتا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ باوجود اسلام کو مذہب مانتے ہوئے ہمارے بحرین میں دینی احکام پر ان ناجائز ہندوانہ رسومات کو ترجیح دی جاتی ہے اور معاشرے کے ہر معاملے میں اسلامی احکام و ہدایت کو پس پشت ڈال کر ظالمانہ رسومات کو فوقیت دی جاتی ہے۔

اس سب کا نتیجہ بالاخر معاشرے میں عدم توازن، بے اعتدالی، جرائم میں اضافے کے ساتھ غریب غرباء میں طرح طرح کے نفیساتی امراض اور احساس کمتری کے پیچیدہ مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ شادی بنیادی انسانی ضرورت اور حق ہے۔ جہیز کی اس لعنت کے سبب آج بحرین میں ہزاروں غریب جوان لڑکے اور لڑکیاں گھر بیٹھے بالوں میں چاندی لا رہے ہیں۔ معاشرہ اخلاقی پستی اور زوال کا الگ سے شکار ہو رہا ہے۔ لوگ بدکاری اور زنا و گناہ کی طرف مائل ہو رہے ہیں اور اپنی زندگیوں سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔

اس لئے میری علاقائی مشران سے لے کر معاشرے کے ہر ہر فرد سے التماس ہے کہ اس ظالمانہ، اور فرسودہ رسم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوجائیں، سب ملکر اس کے خلاف شعور بیدار کریں، شادی کو آسان بنائیں اور جہیز کی لعنت سے معاشرے کو نجات دیں ورنہ اس کا بھیانک انجام ہمارا منتظر ہے اور برائی جس معاشرے میں حد سے بڑھ جائے اس پر بالاخر عذاب الہی نازل ہوکر رہ جاتا ہے، اس لیے اپنے آپ کو اور اپنے معاشرے کو عذاب سے بچائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).