کمزور ہاضمہ ملکی مسائل کی بنیاد ہے


یہ کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا کہ حکومت اور سیاست دانوں پر تو صرف مختاری کی تہمت ہی ہوا کرتی ہے۔ اصل اختیار و اقتدار تو بیوروکریسی، عدلیہ، خلائی مخلوق اور آج کے دور میں کافی حد تک میڈیا کے پاس موجود ہے۔ اسی لیے ملک کے مسائل کے حل کی ذمہ داری بھی بڑی حد تک انہیں اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ ملکی حالات کی تصویر دیکھتے ہوئے کوئی بچہ بھی اندازہ لگا سکتا ہے، مذکورہ ادارے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کس حد تک کامیاب ہوئے۔

ان اداروں کی جانب سے اپنے فرائض کی درست انجام دہی میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں اہم عہدوں پر فائز افراد کی بڑی تعداد مڈل کلاس بیک گراؤنڈ رکھتی ہے۔ اس مڈل کلاس طبقے کے ذہن میں دولت، قوت اور شہرت کے حصول کی خواہش بہت شدید پیمانے پر موجود ہوتی ہے۔ اسی لیے ذرا سی قوت اور اختیار ملنے پر مڈل کلاس طبقے کے افراد اکثر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور ہواؤں میں اڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ بندے کو بندہ سمجھنے سے ہی انکاری ہوجاتے ہیں۔ پھر اپنی کرسی پر بیٹھ کر اپنا اصل کام کرنے کے بجائے ”سلطان راہی“ کی طرح بڑھک بازی شروع کردیتے ہیں نتیجتاً صاحب بہادر کی شہرت اور بھرم بازی کی دیرینہ حسرت تو پوری ہوجاتی ہے مگر فرائض منصبی کہیں پس پشت پڑے رہ جاتے ہیں۔

عصر حاضر میں میڈیا کا کردار پہلے کی طرح محدود نہیں رہا۔ پچھلے کچھ عرصے میں میڈیا جتنا طاقتور ہوچکا ہے اتنا شاید پہلے کبھی نہیں رہا۔ یہاں تک کہ حکومت وقت اور بہت سے ریاستی ادارے بھی اس کی طاقت کے سامنے اکثر بے بس نظر آتے ہیں اور انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی میڈیا کے مطالبات پر سرنڈر کرنا پڑتا ہے اسی لیے نئی انقلابی حکومت اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اس کے پر کترنا لازم تصور کر رہی ہے۔ میڈیا لیکن اپنی کرشمہ سازی کی بدولت عوام کی نبض پر اپنا کنٹرول مستحکم کرچکا، اور رائے عامہ کو اپنی مرضی کا رخ دینے کی غیر معمولی اہلیت کا حامل ہوچکا ہے۔

سوشل میڈیا کی بے مہار طاقت کو لگام ویسے ہی تقریباً نا ممکن ہے۔ اپنی اس بادشاہ گر حیثیت کا میڈیا سے وابستہ افراد کو بخوبی احساس ہے۔ اسی لیے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اینکرز اور کالم نویس حضرات اس حادثاتی ملنے والی طاقت کو اپنی نا آسودہ خواہشات کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلے عرض کیا خواہشات میں سر فہرست دولت اور شہرت کا حصول ہوتا ہے اور اس کے لیے یہ مذہبی اور قومی مفاد کے منافی ایجنڈے کو فروغ دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے، کیونکہ اس صورت انہیں بیرونی این جی اوز کی جانب سے بھاری رشوت کی توقع ہوتی ہے۔

فی زمانہ صرف اطلاعات کی فراہمی ہی میڈیا کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں بلکہ تعلیم و تعلم اور کردار سازی بھی میڈیا کے فرائض میں شامل ہے۔ جبکہ تعلیم اور آگاہی فراہم کرتے وقت اپنی ثقافت، روایات اور اقدار کو پیش نظر رکھنا ابتدائیہ ہے۔ افسوس سے مگر کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا میڈیا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مغربی غلاظت کو ثقافت اور انٹرٹینمنٹ کے نام پر اپنے معاشرے میں انجیکٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے دو وقت کی روٹی کا حصول اس ملک کا اصل مسئلہ ہے مگر میڈیا کبھی ویلنٹائن ڈے کی تشہیر، کبھی بسنت پر پابندی کبھی عاصمہ جہانگیر کے جنازے کو سرکاری اعزاز نہ ملنے اور کبھی نیو ایئر کی تقریبات کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بناکر پیش کرتا ہے کیونکہ اسی طرح کی کاوش سے ان کی روزی روٹی وابستہ ہے۔

میڈیا کی ایک ذمہ داری عوام کو درست حقائق تک رسائی فراہم کرنا بھی ہے مگر اس پیشے سے وابستہ تقریباً ہر شخص اپنی قوت اور شہرت بڑھانے کے لیے کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا ترجمان بنا ہوا ہے۔ اپنے حصہ کے ایئر ٹائم اور اخباری سطور کو کسی سیاسی جماعت کی چمچہ گیری میں استعمال کر کے لیڈر بننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عوام میڈیا پر بیٹھے افراد کو فالو کرتے ہیں مگر اپنے سیاسی مسلک کے دفاع اور مخالفین کی تضحیک میں جو بازاری زبان استعمال ہوتی ہے، کم از کم شرفاء بہو بیٹیوں اور بہنوں کے سامنے نہیں سن یا پڑھ سکتے۔

الا کوئی ایک آدھ ہو گا جو شائستہ اطوار و بیان رکھتا ہو۔ ان سے کیا رہنمائی ملتی ہوگی یہ سامنے ہے۔ دوسروں کو رواداری کا درس دینے والوں دانشوروں میں خود برداشت کا مادہ مفقود ہے۔ تحریک انصاف کے دیرینہ حمایتی اور ”برگزیدہ بزرگ“ اخبار نویس میرے معمولی اختلاف اور تجزیے پر بھڑک اٹھے۔ بات کافی بڑھ گئی مگر، ان کی بزرگی کا لحاظ کرتے ہوئے بڑی مشکل سے خود پر قابو کیا۔ یہی حضرت روزانہ شام کو ایک بڑے چینل پر بیٹھ کر مخالفین کو بادشاہت اور عدم برداشت کے طعنے دیتے ہیں۔

عدلیہ کا بھی یہی حال ہے وہاں بھی مقدمات پر توجہ سے زیادہ بیان بازی پر وقت صرف ہوتا ہے۔ پانامہ کیس میں جو ریمارکس دیے تھے، ان ریمارکس نے ہی سزا کے باوجود میاں صاحب کو ہزیمت سے بچا رکھا ہے۔ ان تضحیک آمیز ریمارکس کی وجہ سے تاثر پیدا ہوا کہ ان کی سزا تعصب کا نتیجہ ہے۔ میاں صاحب کے خلاف اگر یہ ریمارکس نہ ہوتے اور انہیں اصل الزام پر سخت ترین سزا ملی ہوتی تو آج ان کے لیے منہ چھپانا مشکل ہوچکا ہوتا۔ کہا جاسکتا ہے کہ کچھ عرصہ بعد تازہ قید کی سزا بھی شاید قانونی موشگافیوں یا مصلحتوں کے تحت ختم ہو جائے۔

ان حالات میں نیب کے سربراہ شہرت حاصل کرنے کا موقع کس طرح ضائع کرسکتے تھے؟ لہذا بیان بازی میں انہوں نے بھی کسر نہیں چھوڑی۔ قانونی دائرے میں رہنے کے بجائے وہاں بھی تقریروں پر زور ہے۔ رہی سہی کسر ایک خاص نقطہ نظر رکھنے والے افراد کے ناموں کو ای سی ایل میں ڈال کر پوری کر دی گئی۔ سمجھ نہیں آتا اچانک، کیا افتاد ٹوٹ پڑی ہے؟ لوگ باہر آتے جاتے رہتے ہیں۔ واضح رہے ای سی ایل میں نام اس وقت ڈالا جاتا ہے جب ٹھوس اطلاع موجود ہو کہ ملزم سزا سے بچنے کے لیے بیرون ملک فرار ہوسکتا ہے۔

مذکورہ لوگ نجانے کتنی بار باہر گئے اور واپس آ کر انہوں نے پیشیاں بھگتائیں۔ درآں حالیکہ بہت سے ایسے طاقتور بھی ہیں جو اپنے مقدمات کا سامنا کرنے سے انکاری ہیں اور عدالتوں سے وعدہ کرنے کے بعد بھی پیش نہیں ہوتے۔ اصغر خان کیس میں ایف آئی اے کی سفارش کے بعد کیا سوچ پیدا ہو گی کسی کو فکر ہے؟ نہ تو کبھی ان کے خلاف کوئی کارروائی ہو گی اور نہ انہیں قانون کے سامنے پیش کیا جاسکے گا۔ دوسری طرف معاشرے کے معزز افراد کی گاہے ہتھکڑیوں میں تصویریں آتی ہیں اور گاہے زنجیروں میں جکڑی لاشوں کی۔

آئین کا آرٹیکل 15 ہر شخص کو آزادانہ نقل وحرکت کی اجازت دیتا ہے۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی پر کوئی قدغن لگانا، گناہگار کو مظلوم بنانے کے سوا کیا ہے؟ بلاجواز پھرتیوں اور بیان بازیوں کے ذریعے شہرت کا وقتی انتظام ہوجاتا ہے۔ یہی پھرتیاں اور بیان بازیاں مگر وسیع تناظر میں ملزمان کے لیے تقویت اور ملک و قوم کے لیے نقصان کا سبب رہی ہیں۔ جب تک اس ملک کی مڈل کلاس آبادی کے ذہن سے دولت، شہرت اور قوت کی چاہ ختم نہیں ہوتی اور طاقت و قوت کو ہضم کرنے والا ہاضمہ پیدا نہیں ہوتا کوئی احتساب یا انصاف مکمل نہیں ہوسکتا۔ نہ ہی ملکی آبادی کے ایک بڑے حصے کے ذہن سے اس ہوس کو ختم کیے بغیر ملک کو ترقی کی شاہراہ پر چلایا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).