والیء ریاست مدینہ ثانی سے سندھ کی فریاد


قبلہ والیء ریاست مدینہ

سندھ میں اس وقت کینسر کا مرض عام ہو چکا ہے۔ ہر گھر میں آئے روز اس مرض سے قیامت برپا ہوتی ہے۔ چالیس پینتالیس کے بعد تو یہ مرض عام ہے۔ اب اندرون سندھ کے لوگوں کی نارمل لائیف 45 سال تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔
گندا پانی، زہریلا کھانا، سگریٹ چھالیہ گٹکا ، پلاسٹک بیگز، چپس، زہریلی ادویات والی سبزیاں، شہروں کے گٹر کے پانی سے پیدا ہونے والی سبزیاں، اور بھی بیشمار اسباب ہیں اس مرض کے۔
بد قسمتی سے دیہی سندھ کے لوگوں کا کھانا پینا یہی چیزیں ہیں۔
سندھ فوڈ اتھارٹی نام کا محکمہ شاید کہیں فائلوں میں ہے۔ عملاً اس کا کوئی وجود نظر نہیں آتا۔ اسسٹنٹ کمشنر، مختیارکار، ڈپٹی کمشنر، کمشر اور پولیس ڈپارٹمنٹ نے نیند کی گولیاں کھائی ہوئی ہیں۔ اس لئے ان کے آرام میں خلل ڈالنا بری بات سمجھی جائے گی۔ اور تو اور DMG کے شیر دل آفیسرز جو باقی صوبوں سے آتے ہیں وہ یا تو سیاسی پنڈتوں کے آگے بکری بن جاتے ہیں یا پھر نمک کی کان میں نمک بن جاتے ہیں۔ انہوں نے بھی کوئی قابلِ ذکر کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔
کوٹ غلام محمد کا گٹکا فیکٹری مالک اگر 20 لاکھ ماہانہ انتظامیہ کو پہنچائے تو انہیں عوام کی کیا پڑی ہے۔
اگر میرپور خاص ٹرمینل کے غیرقانونی قبضہ مالکان 30 لاکھ انتظامیہ کو ماہانہ پہنچائیں تو انہیں کیا پڑی کہ قانون کی رٹ قائم کریں۔ ریاست انہیں 1 لاکھ ماہانہ تنخواہ دیتی جبکہ قبضہ مافیا 30 لاکھ ماہانہ، تو ان کی ساری وفاداریاں بھی ان سے ہوں گے۔
یہ نا انصافی کی ایک لمبی داستاں ہے جس میں جیالے، جنونی، لیگی اور بھائی لوگ سب شریک ہیں۔ کیونکہ ہر پارٹی کو فنڈز کرمنل سوسائٹی سے ملتے ہیں۔
حضور والا میں فضول باتوں میں پڑ گیا، میں کینسر کے بڑھتے ہوئے کیسز کا ذکر کر رہا تھا۔ میرا چھوٹا گاون جو پانچ سات سو گھروں پر مشتمل ہوگا، پچھلے تین سال میں 30 افراد اس مرض کی وجہ سے بے وقت مارے گئے۔
ہمارے سید حکمران جو اگے شاہ پیچھے “شاہ” لگائے بیٹھے ہیں، فریاد کریں تو جاہل عوام گستاخی کا لیبل لگا کر مشال کی طرح مار دے گی یا پھر میرے شہر کے رؤسا اپنی ذاتی پولیس کا استعمال کریں گے ان سے بچ گیا تو کسی ڈکیتی کی نذر ہوجاؤں گا۔
مجھے یاد آیا کہ ریاست مدینہ کے ایک والی ایسے بھی تھے جنہوں نے رعایا کو پہلے خطبہ میں کہا “لوگو اگر ابوبکر کو غلط کرتے دیکھو تو تمہارا ہاتھ ہو اور ابوبکر کا گریبان ہو۔ یہ سوچ کر میں ریاست مدینہ ثانی کے والے سے فریاد کرنے نکلا ہوں۔۔۔”
حضور میری فریاد ہے سندھ کے لوگوں کو بے یار و مددگار نہ چھوڑیں۔۔۔
مانا کہ کینسر کا علاج ممکن نہیں لیکن ان سے بچاؤ کی تدابیر تو کر سکتے ہیں۔
سندھ میں کینسر کا صفر علاج ہے۔ کِرن سینٹر کراچی یا نورین نوابشاه کے نام سے ادارے ہیں لیکن اج تک ایک بھی مریض وہاں سے شفایاب نہیں ہوا۔
اے ریاست مدینہ کے داعی!
میری فریاد ہے سندھ سے گٹکا زعفری 2100 فروشوں کیخلاف رینجرز کے ذریعے آپریشن کروایا جائے۔۔۔۔
ہر گاؤں میں ہر گھر میں کچے شراب کی بٹھیاں چل رہی ہیں انہیں بموں سے اڑایا جائے۔
پینے کا صاف پانی دیا جائے، اگر ریاست کے پاس پیسے نہیں تو ہر گاؤں میں عوام سے 50 فیصد پیمنٹ لے کر RO پلانٹ لگائے جائیں (جو باہر کی قابلِ بھروسہ کمپنی کے ہوں نہ کہ تھرپاکر میں لگے اومنی گروپ انور مجید جیسے)
کراچی حیدرآباد نوابشاه اور سکھر میں شوکت خانم کے یونٹ کھولے جائیں۔ BISP کا پیسہ جو صرف اومنی شاپس کے مالکان کے اکاؤنٹ میں جاتا ہے خواتین کو تین چار بار شہروں کے چکر کٹوا کر پانچ سو پکڑائے جاتے ہیں، باقی پیسہ اومنی (UBL) کے شاپس مالکان اور لوکل نام نہاد صحافیوں (لوکل رپورٹرز) کے گھروں میں جاتا ہے۔
وہ BISP کا پیسہ بند کر کے کینسر ہاسپٹل بنائے جائیں۔
ہر شہر کا جو گندہ گٹر کا پانی ہوتا ہے وہ میونسپلٹی والے لوکل لوگوں کو بیچتے ہیں جو وہاں سبزیاں اگاتے ہیں اور پھر وہی سبزی شہر کے لوگوں کو بیچی جاتی ہے۔ اس پانے کے استعمال پر پابندی لگائی جائے۔
زرعی ادویات کے استعمال پر مکمل پابندی لگائی جائے۔
اے خلیفہ وقت۔۔۔۔۔۔۔
میرے پاس آپ تک پہنچنے کا نہ تو کرایا ہے اور نہ ہی کوئی ذریعہ۔۔۔۔
اس لئے اللہ کا نام لیکر، اُمِّ موسیٰ کی طرح یہ قوم کی فریاد دریا برد کر رہا ہوں کہ ایک نہ ایک دن بنی گالہ کی نہر سے یہ تابوت آپ کے سامنے نکلے گا۔ اور کوئی آسیہ جیسی پارسا خاتون اس فریاد کو نذر آتش ہونے سے بچا کر سندھ کے دکھڑوں کا مداوا کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).