توہین عدالت اور جج


سپریم کورٹ میں جعلی اکاؤنٹ سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس صاحب نے ملک ریاض کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ پہلے بھی یہ پیشکش کر چکے ہیں کہ ایک ہزار ارب روپے ادا کر کے تمام مقدمات سے جان چھڑا لیں۔ پھر فرمایا کہ اگر پانچ سو ارب دے دیں تو وہ خود عملدرآمد والے بینچ میں بیٹھ کر ان کے خلاف تمام مقدمات ختم کر دیں گے۔ پاکستان کی عدالت عظمی کے معزز چیف جسٹس کی یہ پیشکش پاکستان کے نظام عدل سے متعلق سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔

یعنی چیف جسٹس صاحب کی وہ خواہش اور سرگرمی جس کی ذمہ داری آئین پاکستان نے ان کے کندھوں پر نہیں ڈالی، کو پورا کرنے کے لیے قائم فنڈ کا پیٹ بھرنے والے کے خلاف جتنے مقدمات ہیں وہ محض عدم ثبوت اور گواہوں کی بنا پر ہی نہیں بلکہ جسٹس صاحب کی اُن خواہشات، جن کے وہ اسیر ہیں، کو پورا کرنے سے بھی ختم ہو سکتے ہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوا جس طرح حاجی حج کرنے سے گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے، ٹھیک اسی طرح اگر ملک ریاض کی مرضی ہو تو جسٹس صاحب اُن کو مقدمات سے پاک صاف کر دینے کی ’شکتی‘ رکھتے ہیں۔ (افسوس کہ ملک ریاض نے یہ موقع ضائع کر دیا) ۔

کیا عدالتی نظام سے عوام کا اعتماد اٹھا دینے کے لیے اب تک دیے گئے ریمارکس کو ہی کافی مانا جائے یا ابھی مزید ’ارشادات‘ کا انتظار جاری رکھا جائے۔ اور یہ کہ کوئی بھی صاحب حیثیت شخص رقم ادا کر کے اپنی مرضی کے فیصلے فاضل جج صاحب کے توسط سے حاصل کر سکتا ہے۔ بشرطیکہ ڈیم فنڈ کا پیٹ بھرا جائے۔ آج ضرورت ڈیم پہ پہرا دینے کی نہیں بلکہ عدالتی و آئینی نظام پہ پہرا دینے کی ہے۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہی پیشکش اگر ملک ریاض کی طرف سے کی گئی ہوتی کہ ’میں ایک ہزار ارب روپے ڈیم فنڈ کی مد میں دینے کو تیار ہوں اگر آپ خود عملدرآمد والے بینچ میں بیٹھ کر میرے خلاف تمام مقدمات ختم کر دیں‘ ۔ جیسا کہ ظاہر ہے یہ بات سن کر عزت مآب کا عدالتی جلال (جو اکثر بھڑک اٹھتا ہے ) ، بھڑک اٹھتا اور موقعے پر ہی توہین عدالت کی کارروائی یہ کہہ کر شروع ہو جاتی کہ ’تمہاری جرآت کیسے ہوئی عدالت میں یہ بات کرنے کی۔

’ تو کیا جج صاحب یہ پیشکش کر کے خود ہی توہین عدالت کے مرتکب تو نہیں ہوئے؟ حالیہ کچھ عرصے سے یکے بعد دیگرے آنے والے عدالتی فیصلوں کو کیا آئینی اور قانونی ضابطوں کے تحت مانا جائے یا خواہشات کے اسیر منصفوں کی افتاد طبع کا نتیجہ (جو ریمارکس کی شکل میں جاری ہوتے رہتے ہیں ) ؟ اگر ایک جج ہی بادی النظر میں قانون کی توہین کا مرتکب ہو تو عوام انصاف کی امید کے لیے کس پر اعتماد کریں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).