حکومت اور عوام


عوام الناس کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ حکومتیں کتنی مضبوط اور با اختیار ہوتی ہیں۔ خاص طور پر تیسری دنیا کی حکومتیں جہان عوام کا بدحالی نے بیڑہ غرق کر رکھا ہوتا ہے۔ یہ جملہ کہ سب کچھ عوام ہیں اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عوام طاقت کا سر چشمہ صرف اتنی دیر تک ہیں جب تک حکمران ان کے بل بوتے پر میدان نہیں مار لیتے۔ بعد میں یہ جملہ صرف ان کو بیوقوف بنانے کے لیے بولا جاتا ہے۔

جب کوئی حکومت بر سرِ اقتدار آ جاتی ہے تو چت بھی اس کی پٹ بھی اس کی ہو جاتی ہے اور عوام صرف مفعول بن کر رہ جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں حکومت کا دائرہ ء عمل ایک تختہ سیاہ کی طرح ہوتا ہے جس پر وہ عوام کی قسمت کے فیصلے لکھ لکھ کر مٹاتی ہے۔ بلکہ اس کا ایجنڈا ملک اور قوم کے مفاد سے ورے ورے ہوتا ہے۔ حکومت جو فیصلے کرتی ہے عوام تھوڑے سے شور کے بعد اس کے آگے گھٹنے ٹیک ہی دیتے ہیں۔

اس لیے حکومت کے بر سرِ اقتدار آ کر طاقت پکڑ لینے کے بعد یہ کہنا ہی بے کار ہے کہ عوام چاہیں تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ عوام اکیلے کچھ نہیں جب تک ان پاس ایک مخلص قیادت نہ ہو۔ بصورتِ دیگر وہ ایک بکریوں کا ریوڑہیں۔ اصل وقت عوام کے عمل کا وہ ہوتا ہے جب حکمرانوں کا چناؤ ہو رہا ہوتا ہے۔ غلط انتخاب کر لیا جائے تو پھر حکمران عوام کو چُنتے ہیں مگر انارکلی کی طرح دیوار میں۔

تو عوام صرف اپنی تقدیر اسی وقت بدل سکتے جب وہ حکمرانوں کا انتخاب ٹھیک کر لیں۔ اگر اکثریت جاہل ہو۔ چند روپوں کی خاطر ووٹ بیچ دیتی ہو تو ان کو کبھی اچھے رہنما نہیں مل سکتے۔ با ایں ہمہ اگر کوئی باشعور اور مخلص رہنما عوام کو لے کر اٹھے تو حکمران کتنے بھی مضبوط ہوں بالآخِر ان کے قدم اکھڑ ہی جاتے ہیں۔ مثال ہمارے سامنے ہے۔

بد قسمتی کہیے یا کئی دہائیوں کی بے اعتدالیوں کا نتیجہ، اس وقت پورے ملک میں ایک شترِ بے مہار معاشرہ تشکیل پا چکا ہے جو صرف جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مقولے پر عمل کرتا ہے۔

اس وقت ملک میں نہ صرف مالی مسائل ہیں بلکہ اخلاقی زوال اور جہالت کے عناصر بھی پورے زور سے مصروفِ عمل ہیں۔ یہ دو مونہی عفریت قابو کرنا آسان نہیں۔ تعمیری ڈھانچے کے ساتھ ساتھ اخلاقی عمارت بھی سرے سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔ نصاب میں مثبت سوچ کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ نسلی عصبی قومی اور مسالک کی تفریق۔ اکثریت کا مورال بہت نیچے ہے۔ زندگی کی کوئی تھیم یا مقصد ان کے سامنے نہیں ہر کوئی موقع اور شارٹ کٹ کی تلاش میں ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی صورتِ حال تھی۔ ماضی میں ملک اور عوام کی کسمپرسی دکھا کر جو قرضہ جات لیے جاتے تھے ان کا زیادہ حصہ براہ راست حکمرانوں کے ذاتی کھاتوں میں منتقل ہو جاتا تھا۔ مشرف حکومت میں معیشت مستحکم ہونے کی طرف گامزن تھی۔ لیکن کئی لوگ اس حقیقت سے روگردانی کرتے ہیں۔

انشا اللہ اس بار فنڈز یا قرضے صحیح جگہوں پر ایمانداری سے خرچ ہوں گے تو پھر سب کو بہتری آتی نظر آئے گی۔

لیکن کچھ بے صبرے یا وہ لوگ جن کے ہاتھوں سے الٰہ دین کا چراغ نکل گیا ہے اور ان کو حلال کمانا نہیں آتا وہ موجودہ حکومت کی ہر مثبت کوشش صفر کر کے دکھانا چاہتے ہیں۔ یا کوئی کم زوری نظر آجائے تو بے ہودہ شور مچاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اپنی آنکھوں کے شہتیر نظر نہیں آتے۔

ہر کام کی تکمیل میں وقت اور وسائل لگتے ہیں۔ ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن کی نوزائیدہ حکومت سے چالیس سال کے جوان کی کارکردگی مانگنا زیادتی ہے۔ ملک پکا خزانہ نہ صرف حسبِ روایت خالی تھا بلکہ قرضون کے انبار بھی چوھر کر گئی ہے پچھلی حکومت۔

لیکن حزبِ اختلاف چھریون جیسی زمانیں لمبی کر نے میں دریغ نہیں کرتے۔ اس لیے یہ لوگ موجودہ حکومت پر بے ہودہ ا ور بُودے اعتراض کرتے ہیں۔ ان ک اجواب انہیں کے لیول پر دیا جاتا ہے تو پھر اک بے ہنگم شور مچ جاتا ہے۔ جس کا مقصد لوگوں کو ایک قابل حکومت سے بددل کرنا ہے۔ تا کہ یہ لوگ دوبارہ خود وسائل پر کنڈلی مار کر بیٹھ سکیں۔

یہ دنیا عبرت گاہ ہے۔ کوئی اپنی چالاکیوں اور دھوکے بازیوں کے بل بوتے پر ساری معیشت پر ہی کیوں نہ قابض ہوجائے مکافاتِ عمل سے نہیں بچ سکتا۔ چشمِ فلک یہ نظّارہ دکھا رہی ہے کہ سو دن چور کا اور ایک دن صاحب کا۔

کچھ حاسد شریر اور خود غرض مفاد پرست لوگ اس حکومت کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو بھی محدب عدسہ لگا کر دیکھتے ہیں جبکہ پہلی حکومتوں کی فاش غلطیوں بے ایمانیوں دھاندلیوں اور بڑے بڑے مظالم پر بھی مطلقاً خاموش رہتے تھے۔ وہ حکمران جو تین تین بار اقتدار میں اکر ملک کے لیے کچھ نہ کر سکے ان کے حامی نئی حکومت سے چند مہینوں کا حساب مانگتے ہیں۔

عوام اس بار لاوارث نہیں ہیں۔ ان کو ایک مخلص قیادت مل چکی ہے۔ اور انشاء اللہ باوجود کچھ کمزوریوں کے یہ حکومت ملک اور عوام کے لیہے سود مند ثابت ہو گی۔ حکومت نا تجربہ کاری کے باعث کوئی غلطی کر لے تو کر لے ورنہ نیت ا سکی پاکستان کے لیے سو فیصد نیک ہے۔ الحمد للہ۔ ا سلیے وہ صرف عوام ہی کی نہیں اپنی بھی اصلاح ساتھ ساتھ کر رہی ہے۔ یہ حکومت جھکتی بھی ہے اور جھکاتی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو بد خواہوں سے بچائے تا کہ پاکستان اس منزلِ مراد کو پا لے جس کے لیے یہ معرضِ وجود میں آیا۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).