ببل سے ببل گم تک



ببل کی پیدائش ایک عام سے متوسط طبقے کے گھر ہوئ۔ ببل کی ماں نے ببل کا نام ایک فلمی کردار پہ” ببل” رکھا۔ حقیقت میں اسکا نام جمیل آ را تھا۔ اسکول میں وہ اپنی ہم جماعت بچیوں سے اکثر اس با ت پہ ناراضگی کا اظہار کرتی پائی جاتی کہ کوئی اسےببل کے نام سے نہیں پکارتا ۔ بلکہ سب ہی اسے جملو کہتے ۔ جب وہ اسکول کے کاریڈور سے گزرتی تو لڑکیوں کی ٹولی میں سے کوئی ایک زور سے آواز لگاتی۔
لڑکیاں ۔ جملو!جملو!
ببل ۔ کیا بدتمیزی ہے؟
لڑکیاں ۔ کیوں کیا ہوا؟
ببل ۔ تم سب میرے نام کو بگاڑنے والے کون ہو ؟
لڑکیاں ۔ ہم تو تمہارا اصلی نام لیتے ہیں تم بلا وجہ ہم سب سے لڑنے آ گئ ،جملو کہیں کی۔
ببل ۔ خبر دار جو مجھے اس فضول نام سے پکارا ۔ سب کی شکایت کر دوں گی ۔
لڑکیاں ۔ ہم نے کہاں تمہیں کوئی گالی دی ہےجو شکایت لگانے چلی ہو۔ بی بی جی ببل تو ہمارے کتے کا نام ہے۔ چلو آج سے ہم تمہیں اپنے کتے کے نام سے پکاریں گے۔ خوش؟
ببل غصے میں پیر تختی ہیڈ مسٹریس کے کمرے میں داخل ہوئ۔
ببل۔ میڈم میں اندر آ سکتی ہوں ؟
ہیڈ مسٹریس۔ آجاو۔
ببل نے اس روز پوری کلاس کی رو رو کر شکائت کی ۔ میڈم نے ببل کی باتوں میں آ کر پوری کلاس کی سرزنش کی ۔ ڈنڈے برسائے۔ اور ببل کو اپنے خصوصی چاپلوس بچوں میں جگہ دی۔
یہ ببل کی زندگی کی پہلی کامیابی تھی ۔ ببل اپنے بلبلے میں مسرور اور شاد رہنے لگی۔ ببل کی خاص بات یہ تھی اس میں کچھ بھی خاص نا تھا۔ ایک انتہائی سفید پوش متوسط سے گھر میں پیدا ہوئی۔ اپنے پورے خاندان میں سب سے زیادہ کم شکل اور بد مزاج، اور رہی سہی کسر چہرے پر بڑے بڑے برے اور دانوں نے پوری کر دی تھی ۔ اس روز اسکول میں بچوں کو جوتے کھلوانے کے بعد سے ببل میں ایک عجیب سا اعتماد آ گیا تھا۔ اس نے سمجھ لیا تھا کہ جب گھی سیدھی اگلی سے نہ نکلے تو چولہے پر کیسے چڑھاتے ہیں۔ وہ زندگی کا گر سمجھ گئی تھی کہ عورت کا سب سے بڑا ہتھیار اس کے آنسو ہیں، وہ عورت کارڈ استعمال کرنا جان گئی تھی۔
وہ امتحان میں پوری کوشش کے باوجود کبھی بھی ایک بار میں پاس نہیں ہوتی تھی۔ میٹرک کرتے کرتے اس کی عمر بیس سال ہو چکی تھی۔ کچھوے کی رفتار سے حرکت کرتے وہ ابھی انٹرمیڈیٹ کے امتحان سے ڈی گریڈ میں پاس ہوئی کہ ایک سات فٹے نکھٹو کا رشتہ آیا ۔ ببل کے ماں باپ نے رشتے پہ ہاں کی اور فٹا فٹ ببل سے جان چھڑائی۔
لیکن جان پھر بھی نہیں چھوٹی ۔ ببل اپنے شوہر کے ساتھ اپنے باپ کے گھر ہی میں رہنے لگی۔ اب ببل کے ماں باپ نے کسی طرح سیلف فنانس پر سرکاری جامعہ میں ببل کا داخلہ کروایا اور گھر سے باہر نکلنے کا راستہ دکھایا۔ ببل نے بہت ہی مشکل سے چار سال کی ڈگری کو آٹھ برس میں صرف چاپلوسی کی بنیاد پر پاس کیا۔ چونکہ ان آٹھ سالوں میں وہ لابی بنانے اور طاقتور لوگوں سے مظلوم عورت ہونے کے فائدے اٹھانے کی پوری عادی ہو چکی تھی لہٰذا پاس ہوتے ہی اسے شام کی کلاسز ملنے لگیں۔
ان ہی دنوں اس کے شعبہ میں ایک این جی او والی بی بی” بول کے لب آزاد ہیں تیرے” کا نعرہ لگاتی کسی کانفرنس میں آئیں ۔ ببل نے اپنے ببل میں آنٹی کو پرجوش خوشامدید کہا اور بی بی کے ہمراہ ایسی جگہوں پر جانے لگی جہاں سوڈو لوگوں کے اجتماع ہوا کرتے ، وہیں اسے ایک بد نظر بوڑھا آرٹسٹ ٹکرایا۔ اس روز زندگی میں پہلی بار ببل کو اپنی تعریف سن کر ایسا لگا کہ جیسے آج اس نے دوسرا جنم لیا ہے۔
کچھ ہی عرصے میں ببل کے کئ مینٹور بن گئے۔ خبروں میں آنے کہ لیے وہ عجیب و غریب حرکتیں کیا کرتی ۔ سننے میں آیا ہے کہ آج کل اپنے سے آدھی عمر کے نوجوانوں پہ سائبر جنسی ہراسانی کے الزام میں جیل میں سڑوانے میں بھی کامیاب ہے۔
ببل کا بلبلہ روز بروز بڑا ہوتا جا رہا ہے ، اپنے ہاتھ پہ آج کل “جہیز خوری بند کرو “والا مہندی کا ٹھپہ لگا کر چل رہی ہے۔ کچھ ماہ قبل “میرا جسم میری مرضی” کا پلے کارڈ تھامے عورت ڈے منا رہی تھی یوں ببل سے ببل گم بننے کا سفر کامیابی سے جاری ہے ۔
عزیز قارئین!
ہم سب کہ آس پاس ببل اور ببل گم جیسے انکل اور آنٹیاں موجود ہیں آپ سب سے التماس ہے کہ اپنے بچوں کی حفاظت خود کریں، طبیعت زیادہ خراب ہونے کی صورت میں قریبی ماہر نفسیات سے رجوع کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).