برہمن، سید اور جنرل اور جنرل اگر سید بھی ہو تو؟


پانچ جنوری 2014 کو اگر بھٹو ہوتے تو 86 برس کے ہوتے۔ لیکن یہ شاید میری خواہش ہے۔ کیونکہ آج تک پاکستان میں جتنے بھی گورنر جنرل یا صدر بنے ان میں سوائے فضل الہی چوہدری ( 82 سال) اور غلام اسحاق خان ( 91 سال ) کسی نے بھی 80 کا ہندسہ پار نہیں کیا جبکہ وزیرِ اعظم تو ایک بھی ایسا نہیں گزرا جس نے 80 واں برس دیکھا ہو۔

مگر بھٹو صاحب آج بطورِ خاص یوں یاد آئے کہ جب وہ کال کوٹھڑی میں تھے تو انھیں دانتوں کی شدید تکلیف ہوتی رہی۔ تاہم ضیا حکومت نے جیل کے ہسپتال میں ہی ان کا علاج جاری رکھا اور ان کے ذاتی ڈینٹسٹ ڈاکٹر ظفر نیازی کو کبھی زحمت نہیں دی جب کہ کمبائنڈ ملٹری ہسپتال بھی اڈیالہ سے ایک پتھر کی مار پہ تھا۔

واقعاتی شہادتوں کی بنیاد پر نواب محمد احمد خان کے قتل میں بھٹو صاحب شاید اس سے کم ملوث تھے جتنے پرویز مشرف اکبر بگٹی کے قتل یا جامعۂ حفصہ کی کارروائی میں ملوث بتائے جاتے ہیں۔ مگر بھٹو کی ضمانت نہیں ہوسکی اور مسعود محمود کی سلطانی گواہی نے بھٹو کو تختۂ دار تک لے جانے کا جواز بھی فراہم کردیا۔

لیکن جب سے اصلی گواہوں کے غائب یا منحرف ہونے کا فیشن ہوا ہے، کوئی کسی مقدمے میں سلطانی گواہ بننے کو بھی تیار نہیں۔ بلکہ گواہ کیا، فی زمانہ تو بہت سے وکیل تک کسی انفرادی، اجتماعی یا ادارتی دباؤ کی تاب نہیں لا سکتے اور اپنے وکالت نامے خود ہی منسوخ کر لیتے ہیں۔

بلکہ وکیلوں کو بھی ایک طرف رکھیے، متعدد جج بھی تاریخوں پر تاریخیں ڈالتے چلے جاتے ہیں تاکہ ان کا تبادلہ ہوجائے یا وہ چھٹی لے لیں یا پھر ترقی پا کر مقدمہ کسی اور کے حوالے کر جائیں۔ بلکہ جج ہی کیا خود کئی تفتیش کار اپنی ہی تفتیش کے نتائج سے خوفزدہ ہو کر مجرم کے قدموں کے نشانات کا رخ دروازے تک پہنچنے سے ذرا پہلے ہی احتیاطاً جنگل کی طرف موڑ دیتے ہیں۔

بھلا کون پسند کرے گا کہ کسی کو انصاف دلاتے دلاتے خود ہی اپنے بیڈروم کے پنکھے سے جھول جائے یا تفتیش کرتے کرتے پھولے پیٹ کے ساتھ کسی نہر کے پل کے نیچے کسی جھاڑی میں اٹکا پایا جائے یا اتفاقاً اپنا ہی ریوالور اس طرح چل جائے کہ گولی اپنی ہی کنپٹی پھاڑتی نکل جائے، یا مرنے کے بعد چوتھی منزل سے کود جائے۔

آج کل تو عزرائیل بھی نقاب پوش ہو کر نائن ایم ایم پستول لگا کے موٹرسائیکل پرگھومتا ہے۔ چنانچہ فی زمانہ جو یہ کہتا ہے کہ کاغذ پر بندوق کی نال سے دستخط نہیں ہوسکتے، ذرا سامنے آ کر تو کہے۔

چار اپریل 1979 تک جنتا کو تین طرح کے دھماکہ خیز مواد رٹے ہوئے تھے۔ یعنی ڈائنامائیٹ، آر ڈی ایکس اور پلاسٹک ایکسپلوسیو۔ آج تو اللہ جانے کتنے قسم کے پھاڑو موادات و مفسدات مہیا ہیں۔ حتیٰ کہ فرینڈلی آئی ای ڈیز ( امپروائزڈ ایکسپلوسیو ڈیوائس) بھی آ گئے ہیں جو پھٹتے وٹتے نہیں صرف ڈرانے ورانے کے کام آتے ہیں، (ملزم سمجھنے والوں کو ڈرانے اور ملزم کو ورانے کے لیے )

ایسے ماحول میں ایسے میڈیائی پنڈتوں کو دیکھ سن کے بڑا اچھا لگتا ہے جو معصوم معصوم سوالات سے باسکٹ بال کھیل رہے ہیں۔ مثلاً کیا مشرف صاحب کے باڈی گارڈز ایم بی بی ایس بھی تھے جنہوں نے سینے میں درد اٹھتے ہی ہارٹ اٹیک بھانپ لیا اور ہنگامی طبی امداد کے لیے اچھی بھلی عدالت جاتی گاڑی کا رخ دو منٹ کے فاصلے پر واقع پولی کلینک یا آٹھ منٹ دور پمز ہسپتال کی جانب موڑنے کے بجائے 25 منٹ کی ممکنہ جان لیوا مسافت پر قائم آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی طرف کر دیا؟ حالانکہ دل کے دورے کے بعد مریض کی زندگی کے لیے ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے۔

یا یہ سوال کہ صرف مشرف ہی کیوں؟ انہوں نے اکیلے تو سب کچھ نہیں کیا۔ باقی شریکِ گناہ کہاں ہیں؟
مگر یہ سوال تو اس وقت بھی پوچھنا چاہیے تھا جب جوہری بم ساز ڈاکٹر قدیر سے ٹی وی پر کہلوایا گیا تھا کہ وہ تنِ تنہا جوہری مواد کی سمگلنگ میں ملوث ہیں لہٰذا اکیلے ہی شرمندہ ہیں، لہٰذا اکیلے ہی معافی مانگتے ہیں۔

آسان اردو میں اس کا ترجمہ یوں ہوگا کہ فوج کی نگرانی میں جاری جوہری پروگرام کے ناظمِ اعلیٰ سے لے کر کہوٹہ کے گیٹ پر اونگھنے والے سنتری تک کسی کو کبھی بھنک نہیں ہوئی کہ میں سینکڑوں سینٹری فیوج اور حساس نقشے بش کوٹ اور پتلون کی جیبوں میں اڑس کر اڑن قالین پر بیٹھ کر پیونگ یانگ، تہران اور دوبئی آریا ہوں جاریا ہوں، جا ریا ہوں آریا ہوں۔

ڈاکٹر قدیر تو تنِ تنہا جوہری ہوڈینی بن سکتے ہیں مگر کمانڈو مشرف ایک معمولی سا آئین بھی اکیلے نہیں توڑ سکتے؟ واہ سائیں واہ۔

یا یہ دلیل کہ 12 اکتوبر 99 کو حاضر سروس چیف آف آرمی سٹاف نے ٹیک اوور کیا اور تین نومبر 2007 کی ایمرجنسی اور آئین کی جزوی معطلی بھی چیف آف آرمی سٹاف کا کام تھا لہٰذا ان پر کسی سول عدالت میں مقدمہ نہیں چل سکتا بلکہ کورٹ مارشل ہوسکتا ہے۔

بات یہ ہے کہ اگر کورٹ مارشل اتنا ہی آسان ہوتا تو جنرل یحییٰ خان اور جنرل نیازی کا بھی ہوجاتا۔
برہمن، سید اور جنرل اور جنرل اگر سید بھی ہو تو؟ بات کہیں سے کہیں نکل جائے گی۔ چنانچہ مٹی پاؤ۔
5 جنوری 2014


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).