مجلہ “راوی” 2015 کے لئے ڈاکٹر سلیم اختر صاحب کی ایک تحریر


پروفیسر ڈاکٹر محمد ہارون قادر صاحب صدر شعبہ اردو و کنٹرولر امتحانات گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور نے ان کے گھر کا پتہ دیا اور اگلے ہی روز ان کے گھر ملنے گیا۔ ان کی بیوی نے انھیں بتایا کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے ایک طالب علم آیا ہے تو صوفے پر بیٹھ گئے اور مجھ سے سلام دعا لے کر آنے کا مقصد پوچھا تو انھیں بتایا کہ مجلہ “راوی” میں صابر لودھی صاحب کا ایک گوشہ بنانا ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی صاحب صدر شعبہ اردو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور اور اس وقت نگران مجلہ “راوی” کا خیال ہے کہ آپ کا کوئی پرانا مضمون ہی صابر لودھی صاحب کے بارے میں ہو تو بتا دیجئے، وہی اس کا حصہ بنا لیں گے۔ پہلے تو انھوں نے مجھ سے شعبہ اردو کے اساتذہ کی خیریت دریافت کی اور مجھے بتایا کہ آپ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے مجھے ملنے آئے ہیں تو آپ سے ملاقات کی کیوں کہ مجھے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے محبت ہے۔

کچھ روز قبل فالج کا حملہ ہوا اور اب دن میں کچھ دیر کے لئے بیٹھتا ہوں تاکہ طبیعت سنبھل جائے۔ آپ سے مل کر طبیعت سنھلی ہے اور مجھے پروفیسر ڈاکٹر محمد ہارون قادر صاحب سابق صدر شعبہ اردو و کنٹرولر امتحانات دعوت دے چکے ہیں کہ آپ گھر میں بور ہوتے ہوں گے، آپ ہفتہ میں کسی روز گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور تشریف لے آیا کریں تاکہ نئے آنے والے طلبہ آپ سے مل کر یہ کہہ سکیں کہ وہ آپ سے شرف ملاقات حاصل کر چکے ہیں۔ اس بات پر غور کر رہا ہوں تو ان سے کہا کہ واقعی آپ کی تشریف آوری شعبہ اردو کے لیے کسی نعمت سے کم نہ ہو گی کیوں کہ اس وقت پنجاب پبلک لائبریری کے کمپیوٹر کیٹلاگ کی طویل فہرست میں درجنوں کتب ڈاکٹر سلیم اختر کے نام کی دیکھ چکا تھا اور “اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ” اسائنمنٹ بنانے میں اکثر کام آتی تھی اور دوستوں نے بتایا تھا کہ یہ سی ایس ایس کی تیاری کے لئے مجوزہ کتب میں شامل ہے۔ کہنے لگے کہ کچھ دنوں تک طبیعت سنبھلی تو آجاؤں گا لیکن آپ صابر لودھی صاحب کے بارے میں کچھ باتیں لکھ لیجئے اور خود ہی اسے مضمون کی شکل دے دیجئے گا۔ اس کے بعد وہ بولتے گئے اور خود لکھتا گیا۔ وہ تحریر آپ ذیل میں پڑھ سکتے ہیں کہ جس میں انھوں نے اپنی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور اور صابر لودھی صاحب سے محبت کا اظہار کیا۔ جاتے وقت مجھے کہنے لگے کہ مجلہ “راوی” کا مدیر بننے پر مبارک باد۔
مجلہ “راوی” میں کسی ادیب کی تحریر آجائے تو یہ اعزاز سمجھا جاتا ہے اور اس کا مدیر بننا تو خوش بختی ہے۔ کہنے لگے کہ ہمارے زمانے میں ہر بڑے ادیب کی خواہش ہوتی کہ وہ مجلہ “راوی” میں چھپے، آج بھی صورت حال اس سے مختلف نہیں۔ ان کا ادب سے شکریہ بجا لایا اور موٹر سائیکل پر واپسی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کی جانب روانہ ہوا۔

واپسی پر حیران کن پریشانی میں مبتلا تھا کہ ایک ایسا بلند پایہ ادیب کیسے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کی محبت میں گرفتار ہے اور مجھے کتنی محبت سے نوازا۔ اس نے خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹنے دیا کتنی محبت اپنے دامن میں سمیٹے اور محبت کے قیمتی موتی چننے کے بعد واپس آنے دیا۔ رب نے عظیم انسان بنا کر ان کے ذہن میں ایسا سسٹم نصب کر دیا ہوتا ہے کہ جس کے سامنے ہزاروں آئی فون یا آئی پیڈ کی ٹیکنالوجی ہیچ لگتی ہے۔ وہ کیسے ہر آدمی کی خواہش جان لیتے ہیں اور کیسے انھیں خوش رکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ واپسی پر جہاں مجلہ “راوی” کے گوشہ صابر لودھی صاحب پر ملنے والی ایک اہم تحریر پر خوش تھا وہاں ایک بزرگ ادیب کی محبت کو رشک بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا اور ان کی صحت یابی کے لئے دعا گو تھا۔ جب ڈاکٹر محمد صدیق احمد اعوان صاحب مینیجر مجلہ “راوی” و صدر شعبہ انگریزی، نگران مجلس مباحث نے اس تحریر کو پڑھا تو کہنے لگے ڈاکٹر سلیم اختر صاحب نے بیماری کی حالت میں یہ تحریر کیسے لکھی تو انھیں بتایا کہ وہ بولتے جاتے تو لکھتا جا رہا تھا۔ جس پر انھوں نے اثبات میں سر ہلا دیا جیسے اس تحریر کے آنے پر انھیں خوشی ہوئی ہو۔

اس کے بعد معلوم ہوا کہ عمارہ رشید صاحبہ ڈاکٹر انوار احمد کے رسالہ “پیلوں” کے لئے ان سے اداریہ لکھواتی ہیں یعنی وہ بولتے رہتے ہیں اور وہ لکھ لیتی ہیں۔ بس انتظار یہی تھا کہ کسی دن خبر ملے کہ گھر پر ہیں اور آنے والوں سے ملاقات کر لیتے ہیں لیکن جب ان کی وفات کے بارے میں معلوم ہوا تو دل جیسے بیٹھ گیا ہو۔ یہ موت بھی رب نے کیسی چیز بنا دی ہے کہ عمر کے جس حصے میں ہی کیوں نہ آئے اور جس حالت میں ہی کیوں نہ آئے ایک مرتبہ اس کا سن کر ہی دل پر خوف طاری ہو جاتا ہے۔ فیس بک پر آپ کے چاہنے والوں نے آپ کی وفات کے بارے میں بتا دیا جو خبر پوری دنیا میں موجود اردو دنیا سے تعلق رکھنے والے دوستوں تک پہنچ گئی۔ بیرون ملک مقیم ادیبوں نے اپنے گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا ساتھ ہی وقت پر نماز جنازہ کا سب کو بتا دیا گیا۔ بلا شبہ اردو دنیا کے لوگ آپ کی تحریروں سے مستفید ہوتے رہیں گے، آپ کی کتب نئی نسل کی راہنمائی کریں گی۔ دعا ہے کہ رب آپ کی علمی خدمات کے عوض آپ کی بخشش فرمائے اور جنت میں اعلیٰ مقام۔ عطا فرمائے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).