محبت اور متوازن زندگی!


میں پچھلے سات سال سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہوں۔ اپنے سٹوڈنٹس کے مسائل سننا اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرنا میرا مشغلہ بن چکا ہے۔ ان ٹین ایجرز کے مسائل جان کر زندگی کو ان کی نظر سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے اور میرا کچھ نیا سیکھنے کا شوق بھی پورا ہوتا رہتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنی کلاس کی ایک سٹوڈنٹ کے رویے میں بہت غیر معمولی تبدیلی نوٹس کی۔ بہت ایکٹو رہنے والی اس لڑکی کو میں کچھ دنوں سے بہت اداس اور زندگی سے بے زار دیکھ رہی تھی۔

جب کچھ دنوں تک اس کا یہی رویہ رہا تو ایک دن میں نے اسے کلاس کے بعد ملنے کے لیے بلایا۔ میں نے اس کی پریشانی کی وجہ پوچھی اور اس پر اس کی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے۔ وجہ اس نے یہ بتائی کہ وہ اپنی ایک گہری دوست کو بہت خلوص سے چاہتی تھی لیکن اس نے اس سے تعلق ختم کر لیا اور اب وہ خود کو بہت تنہا محسوس کر تی ہے۔ سننے میں بہت معمولی سی بات لگتی ہے مگر اس چھوٹی سی بات کی وجہ سے میں نے اس سترہ، اٹھارہ سال کی لڑکی کو تقریبا ڈپریشن میں مبتلا محسوس کیا۔

میں نے اسے کافی سمجھایا اور کچھ ہفتوں میں اس کی حالت میں بہتری بھی دیکھی۔ اس واقع کی طرح ہماری زندگی میں بھی کبھی نہ کبھی ہم ایسے مسئلوں کا سامنا ضرور کرتے ہیں۔ جب کسی کی محبت ہمیں بے بس کر کے رکھ دیتی ہے اور ہمارا حال پاگلوں سے کم نہیں لگتا۔ لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اسی سوال نے مجھے سوچ میں ڈال دیا۔

ذرا غور کریں! کا ئنات کی ایک خوبصورت حقیقت یہ ہے کہ نظام قدرت میں ہر شے، ہر زرے کی حد بڑی دانائی سے مقرر کی گئی ہے۔ جس میں کمی یا زیادتی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ برستے بادلوں کی مثال لے لیجیے، اگر کم برسیں تو زمین پر قحط ڈال سکتے ہیں اور ضرورت سے زیادہ برسنے لگیں تو سیلاب لا سکتے ہیں۔ انسانی زندگی کے لیے بھی ربِِ کائنات کی طرف سے کچھ اصول طے کیے گئے ہیں جو قدرت کے مقرر کردہ دائرے ہیں۔ اگر ان دائروں میں زندگی بسر کریں گے تو اپنی زندگی میں ایک توازن پائیں گے جو بہترین زندگی کی بنیادی شرط ہے۔ کیونکہ اگر توازن بگڑے تو انسانی وجود ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ بے شک انسان اشرف المخلوقات ہے اور اس ناطے اسے اختیار حاصل ہے، وہ چاہے تو ان اصولوں کے آگے سر خم کردے اور اپنی زندگی سنوار لے۔ اور چاہے تو خود پر ظلم کرے اور اپنی دنیا تباہ کر لے۔

انسانی دل میں بیک وقت بہت سے جذبات اپنا بسیرہ کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ جو دنیاوی احساسات اپنی حدوں کو عبور کرتے ہیں وہ ہمیں نقصان کے سوا کچھ بھی نہیں دے پاتے۔ ہمارے حالات بگڑنے کی ایک بڑی وجہ لوگوں سے بے جا محبت کرنا ہے۔ میں نے سمجھا ہے کہ جب محبت کا جذبہ شدت پکڑ لے تو بہت خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ اور پھر یہ شدت ہمیں زندگی کے تلخ تجربے سے روشناس کرواتی ہے۔ جب ہم لوگوں سے بہت مخلص ہو کر محبت کرتے ہیں تو اپنی ساری توقعات ان سے وابستہ کر کے بدلے میں ایسی ہی مخلص اور شفاف محبت کی امید باندھ لیتے ہیں۔

لیکن جب زندگی کے کسی موڑ پر وہ عارضی لوگ، جن کے مستقبل میں ہم دور تک کہیں موجود ہی نہیں ہوتے، ہماری زندگی سے نکل جاتے ہیں تو ہمارے معصوم احساسات بہت مجروح ہوتے ہیں۔ ہم اپنی زندگی کو خود پر تنگ کرلیتے ہیں۔ یہ مرحلہ کسی بھی حساس شخص کی زندگی کا مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے۔ اس سے گزرنا اور گزر کر ابھرنا یقین جانیئے ہرگز ایک آسان کام نہیں ہے۔ بظاہر نارمل دکھنے والے لوگوں کے اندر توڑ پھوڑ کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔

ہم اپنی حالت کے لیے خود کو قصوروار ٹھہرا کر اپنے آپ کو سزا دینے کے بہانے تلاش کرتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو قصور سراسر ہمارا ہی ہوتا ہے کیونکہ ہم رب کائنات کے سب سے اہم اصول کی خلاف ورزی کر چکے ہوتے ہیں یعنی ہم انسانوں کی محبت میں اپنے رب کی محبت کو پس پشت ڈال دیتے ہیں جو اس ذات کی شان کے خلاف ہے اور اسے ہرگز قبول نہیں۔ کسی نے سچ لکھا ہے کہ ’انسان جس سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے اللہ اس کو اسی کے ہاتھوں سے توڑتا ہے۔ ‘

تو اب ایسے حالات میں سکون صرف اس وقت میسر آئے گا جب اس غلطی کی تلافی ہو گی اور جب ہم اپنی محبت کا رخ اس پاک ذات کی طرف موڑیں گیں جس نے ہمیں بڑی محبت سے بنایا ہے اورجو ہماری پکار کا شدت سے منتظر ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک خود سورہ بقرہ میں فر ماتا ہے : ’سنو! جو بھی اپنے آپ کو خلوص کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکا دے۔ بے شک اس کا رب اسے پورا بدلہ دے گا، اس پر نہ تو کوئی خوف ہوگا، نہ غم اور اداسی۔ ‘ انسانوں سے محبت کرنے کے کچھ محدود تقاضے ہیں۔

جیسا کہ لوگوں سے بہترین اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہمارا فرض ہے۔ ہر شخص کے حقوق احسن طریقے سے ادا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اور لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا باعث نیکی ہے۔ لیکن بندوں سے محبت میں حد سے تجاوز کر کے انہیں اپنی زندگی کا محور بنا لینا ہماری سب سے بڑی بے وقوفی ہے۔ کہتے ہیں کہ ’انسان کو اس ٹوٹے ہوئے برتن کی طرح ہونا چاہیے جس میں لوگوں کی محبت آئے اور باہر نکل جائے۔ ‘ سوں اگرآپ خوش رہنا چاہتے ہیں تو چند باتوں کو دل سے قبول کر لینا بہت اہم ہے۔

ایک حقیقت تو یہ کہ اس مسلسل بدلتی ہوئی زندگی میں کچھ بھی مستقل نہیں رہتا۔ لوگ بھی نہیں۔ لہذا ان عا رضی لوگوں سے تھوڑی بے نیازی بعض دفعہ بہت ضروری ہو جاتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس عارضی زندگی میں کسی انسان سے اپنی بہت سی توقعات وابستہ کر لینا، لمبی خواہشات باندھ لیناسوائے تکلیف کے ہمیں کچھ نہیں دیتا۔ زندگی میں توازن قائم رکھنے کے لیے اگر ہم ان باتوں کو اپنی زندگی کا ضابطہ بنا لیں تو یہ ہماری ایموشل ہیلتھ کے لیے بہتر ثابت ہوں گیں۔

محبت اور وہ بھی بے پناہ محبت صرف اللہ پاک کی ذات کے لیے ہونی چاہیے۔ انسان فطرتاٌ محتاج ہے توکیا یہ بہتر نہیں کہ وہ اللہ کا محتاج رہے؟ اللہ آزمائش میں تو ڈالتا ہے لیکن انسانوں کی طرح ہمیں تنہا نہیں چھوڑتا۔ اس کی محبت میں بے شک حد سے گزر جائیں، اِس محبت کو زوال نہیں۔ خود کو فناہ کرلیں کیونکہ اسی میں آپ کی بقاء ہے۔ آپ کی ہر طلب کی ابتداء اور انتہا صرف اس کی ذات ہو تو اِس محبت کاصلہ آپ کو کئی گنا ملے گا یہ شرط ہے۔ اپنے رب کی

محبت حاصل کرنا سب سے زیادہ آسان ہے اور اس محبت کی مشکل میں بھی آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔ اس حقیقت کو سمجھ لیں، زندگی متوازن اور پرسکون ہو جائے گی۔

انعم عابد بٹ

اسسٹنٹ پروفیسر پولیٹیکل سائنس
پنجاب ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).