سی ایس ایس کا بخار


آپ بچپن سے لے کر آج تک سردی کے بخار سے تو ضرور واقف ہوں گے، جس میں بندے کو تیز بخار کے ساتھ سردی بھی محسوس ہوتی ہے، چوں کہ آج کل دنیا ترقی کے مراحل طے کر چکی اور کر رہی ہے تو سیانوں نے بخار کی ایک نیا قسم بھی دریافت کر لی ہے جسے سی ایس ایس فیور (css fever) کہا جاتا ہے۔ سلیس اردو میں اگر اسے ”سی ایس ایس“ کا بخار کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ اب یہ دونوں بخار بہت ساری چیزوں کے حوالے سے ایک جیسے ہی ہیں۔

مثلاً:
سردی والے بخار میں بندے کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پوری دنیا کی سردی ایک طرف پر اسے جو سردی لگ رہی ہے وہ سب سے زیادہ ہے، اسی طرح سی ایس ایس کے بخار میں مبتلا آدمی کو سی ایس ایس کرتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو علم اس کے پاس وہ ساری دنیا میں کسی کے پاس نہیں۔

سردی سے بخار میں مبتلا بندہ چاہے ساری دنیا کی رضائیاں اور کمبل کیوں نہ اوڑھ لے پر اس کی سردی میں کمی نہیں آتی بالکل اسی طرح سے سی ایس ایس کے بخار میں مبتلا بندے کو آپ چاہے کتنی بھی نصیحتیں کریں پر اس کے ”میرے پاس سارا علم ہے“ والے بخار میں کمی نہیں آتی۔

اب جن دوستوں کا ان بخار زدہ لوگوں سے پالا نہ پڑا ہو تو وہ سی ایس ایس پاس اور تیاری کرنے والوں کے روئیوں سے اس کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ زندگی کے کسی بھی شعبے سے متعلق صرف امتحان ہی کو سارے تعلیمی نظاموں کا بدل سمجھنا ٹھیک ہوتا تو دنیا کے یہ سارے تعلیمی نظام اور تعلیمی ماہر خوام خواہ میں اپنا بھیجا ضائع نہ کرتے۔

پاکستان بننے سے پہلے آئی ایس ایس یعنی انڈین سول سروسز ہوا کرتی تھی جو پاکستان بننے کے بعد سی ایس ایس یعنی سینٹرل سپیرئیر سروس میں تبدیل ہوگئی، سی ایس ایس 12 مضامین والا ایسا امتحان ہے جسے عبور کرکے بندہ فرش سے عرش تک پہنچ سکتا ہے، ان 12 مضامین میں سے 6 لازمی اور 6 اختیاری ہوتے ہیں، اور یہ واحد امتحان ہے جسے پاکستان میں میرٹ کے عین مطابق سمجھا جاتا ہے اور یہی امتحان بہت سارے نوجوانوں کا ایسا خواب ہے جس کی تکمیل صرف چند ہی کر پاتے ہیں۔

اب اسے ہمارے سماج کا المیہ کہا جائے یا مجموعی طور پر ہماری سوچ، سمجھ، عقل اور دانش کا چکر کہ سی ایس ایس کے امتحان ہی کو امیدوار کی قابلیت کو جانچنے کا واحد ذریعہ سمجھا جاتا ہے، ایک امتحان کے بدولت امیدوار کی ذہنی اپروچ کا تعین کرنا در حقیقت اس امیدوار پر بھی ذہنی طور پر اثرانداز ہونے کا باعث بنتا ہے، نتیجتاً سی ایس ایس کے امتحان میں کارکردگی نہ دکھانے والے امیدوار کے حوالے سے عجیب طرح کے تاثرات گردش کرتے ہیں، تاہم اس کے برعکس ہم زمینی حقائق کو دیکھنے، سی ایس ایس کے امتحانات میں چلنے والے ٹرینڈس اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی وقت کے ساتھ ساتھ سخت ہوتی پالیسیوں پر نظر دہرانے کو عیب سمجھتے ہیں۔

یہ الگ بات ہے کہ جو طلباء کمیشن کے ایسے امتحانات پاس کرکے کامیاب ہوکر منزل پر پہنچتے ہیں ان کی محنت اور لگن کو تسلیم کرنا بھی ان کا حق بنتا ہے، ایسے طلباء جو اپنی قابلیت کی بنیاد پر ایک کٹھن معرکہ سر کرکے خود کو معاشرے کے سامنے ثابت کر رہے ہیں، پر ایسے امتحانات میں فیل ہونے والے طلباء کی ذہنی اپروچ اور صلاحیتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا بھی نوجوان نسل کے ذہنوں کے ساتھ جنگ کرنے کے برابر ہے۔ چوں کہ وقت اور حالات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں سے بیروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کے باعث نوجوانوں کا رجحان سی ایس ایس اور دیگر کامپیٹیٹو امتحانات کی طرف بڑھتا جارہا ہے اس کے ساتھ ساتھ متعلقہ اداروں کی جانب سے پالیسی بھی سخت سے سخت تر ہوتی جارہی ہے، پھر وہ نصاب کی تبدیلی کی صورت میں ہو یا نتیجے کی صورت میں۔

پر جہاں میرٹ کو برقرار رکھنے کے لیے ہونے والی ایسی کوششوں سے طلباء کے راستے تنگ ہوئے ہیں وہیں ان کی امیدوں کا قتل بھی ہوا ہے۔

اس ساری تحریر کا بالکل بھی یہ مقصد نہیں کہ نوجوانوں کو سی ایس ایس کی طرف نہیں جانا چاہیے پر انہیں ان باتوں سے روشناس کروانا ہے کہ سی ایس ایس کو بھی عام امتحانات ہی کی طرح لینا چاہیے اور چیزوں کو زیادہ سنجیدہ لے کر اپنے ذہن پر سوار کرنے کے بجائے ساری چیزوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔
لکھاری سندھ یونیورسٹی کے شعبہ میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسٹیڈیز کے طالب علم ہیں، سیاست و فلسفے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).