کیا پروفیشنل کامیابی کسی کسی کو حاصل ہوتی ہے؟


اس دنیا کے لوگ مختلف ہیں، ان کے کام، ان کے مزاج، ان کے تقاضے اور ضروریات سب مختلف ہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جب پروفیشنل سکسیس (پیشہ ورانہ کامیابی) کی بات آئے تو سب لوگ ایک سے کامیاب ہو سکیں۔ بعض احباب یہ کہتے ہیں بلکہ اپنی ورکشاپس اور موٹیویشنل اسپیکنگ سیشنز میں اعلٰی ترین پروفیشنل کامیابی کا یوں درس دیتے نظر آتے ہیں کہ ہر آدمی خود کو اس کی بلند ترین سیڑھی پر کھڑا دیکھنے لگتا ہے یا اس کا متمنّی ہو جاتا ہے، مزید برآں خود میں اس کی تڑپ محسوس کرنے لگتا ہے۔ حالانکہ یہ چیز تمام لوگوں کے لئے بیک وقت حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتی اور چند دن گزرنے پر شاید ایک دو کو چھوڑ کر تمام مندوبین اور شرکاء اس سبق کے بے حقیقت عوامل سے شکست کھا کر ویسے ہی اپنی زندگیوں کو گزار رہے ہوتے ہیں جیسے پہلے بسر کر رہے تھے۔

اس میں شک نہیں کہ انسان کو بڑا سوچنا چاہیے اور اس کی کوشش بھی کرنی چاہیے لیکن ہر انسان کے لیے پروفیشنل کامیابی کا ایک سا معیار نہیں ہوسکتا۔ مثال کے طور پر ایک کمپنی کے اندر تمام لوگ اونر یا چیف اگزیکٹو افسر، چیف آپریٹنگ افسر یا چیف فائنانشل افسر نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ٹاپ مینجمنٹ اپنی مڈل مینجمنٹ، لوئر مینجمنٹ اور ورکر کلاس کے بغیر سرواؤ کر سکتی ہے۔ اس سے قطع نظر یہ درست ہے کہ کامیابی چاہے پروفیشنل ہو یا پرسنل اس میں بنیادی نتائج سب کے لئے ایک سے ہونے چاہئیں یعنی محنت کا صلہ دیا جائے، لائق معاوضہ وقت پر دیا جائے، وقت معینہ کے اندر سروس لی جائے اور اضافی وقت کے لیے اوور ٹائم دیا جائے اور اسی طرح کی دیگر بنیادی کنسیڈریشنز ادا کی جائیں۔ بلاشبہ یہ سروس پرووائڈر کا حق اور سروس ریسیپینٹ پر واجب الادا ہوتے ہیں اور یہی پروفیشنل کامیابی کے بنیادی مظاہر ہیں۔

جس طرح اللہ تعالی نے تمام لوگوں کو صرف پاکستان میں یا امریکہ، سعودی عرب اور براعظم افریقہ میں پیدا نہیں کیا بلکہ مختلف لوگوں کو دنیا کے مختلف ملکوں اور خطوں میں پیدا کیا ہے اسی طرح لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی مختلف مہیا کیے ہیں۔ جس طرح ہر ملک میں سب لوگ حکمران بادشاہ یا وزراء نہیں بن سکتے اسی طرح تمام لوگ تاجر یا سرمایہ دار بھی نہیں بن سکتے نہ ہی تمام لوگ مزدور یا نوکر بن سکتے ہیں۔ جو آدمی جس کام سے منسلک ہے وہ بہت اچھا ہے، چاہے سہل ہے یا دقت طلب اس کے لئے منعم کے عطا کردہ رزق کا ذریعہ ہے۔ ایسے میں آدمی کو درج ذیل کام کرنے چاہئیں :

1) اوّل دیانتداری کے ساتھ اپنی ذمہ داری ادا کرے۔
2) دوم اللہ کی نعمت پر اس کا شکر ادا کرے۔

3) سوم جو کام وہ کر رہا ہے اس میں رائٹ ٹریک (صحیح راستہ) پر آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔ اس کو میں اور واضح کرتا ہوں۔ سیانے اور تجربہ کار بتاتے ہیں کہ اصل کامیابی کے لئے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا لونگ روٹ ہی ہوتا ہے (کوئی استثنائی صورت نکل بھی آئے تو کبھی کبھار کی صورت اسے مثالی یا بنیادی حیثیت نہیں مل سکتی) ۔ ماضی و حال میں دنیا کے کامیاب ترین لوگوں نے سالہا سال کی محنت سے ہی دنیا میں کوئی مقام حاصل کیا ہے چنانچہ جس عہدے یا منصب پر آدمی کام کر رہا ہو اس پر رہتے ہوئے کریئر کی اگلی سیڑھی پر نظر رکھے اور وقت کے ساتھ صحیح موقع پر کریئر لیڈر پر اوپر چڑھنے کی کوشش کرے۔ صحیح وقت کا تعیّن مشکل نہیں اس کے لئے تجربہ کاروں اور گوگل سے مدد لی جاسکتی ہے (ویسے عام طور پر اس کی میعاد دو سے پانچ سال ہوتی ہے ) ۔ اس کے حصول کے لئے دیانتداری، محنت اور صبر ضروری اور موثرترین ہتھیار ہیں۔

4) آخری چیز یہ کہ اگر آپ اپنی جاب سے دل کے عدم میلان یا اپنی مسلسل گرتی ہوئی کارکردگی کی وجہ سے مطمئن نہ ہوں یا کسی اور پروفیشن کی طرف رجحان اور فطری فہم رکھتے ہوں تو ضرور اس طرف سوئچ کرنے کا (رخ بدلنے کا) سوچیں۔ یہ سوئچ کیوں کر ممکن ہے یہ تفصیل طلب موضوع ہے اور ہمارے آرٹیکل کی حدود سے باہر ہے اس لئے اس پر یہاں روشنی ڈالنا ممکن نہیں۔

تیسری صورت ہو یا آخری صورت پروفیشنل کامیابی کے راستے آپ کے فطری رجحانات اور ان سے حاصل ہونے والے ممکنہ ثمرات کی افزائش میں رکاوٹ نہیں بننے چاہئیں۔ دنیا میں متعدّد پروفیشنلز نے اپنے شعبوں میں تو دوسرے پروفیشنلز کی طرح کامیابیاں حاصل کی ہیں مگر ان کے فطری رجحان پر مبنی خوداختیاری روزگار نے دراصل انہیں دنیا میں شہرت و دوام سے ہمکنار کیا ہے اور کوئی دن ان کا شوق ان کے لیے پروفیشنل کامیابی کی نوید بھی لے کر آیا ہے۔ چنانچہ ہر آدمی کو چاہیے کہ اپنے اندر چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو پہچانے اور اسے آہستہ آہستہ محنت کی بھٹی میں تپاتا چلا جائے، کیا پتہ کسی دن وہ کندن بن جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).