عرب فوجی اہلیت اور اسرائیل


اگر فوجی، ٹینک، فائٹر طیاروں کی تعداد کو دیکھا جائے تو عرب اسرائیل کا کوئی مقابلہ نہیں بنتا یہ عقاب اور ممولے کی لڑائی نظر آتی ہے۔ عربوں کو تزویراتی گہرائی کا فائدہ بھی ہے ان کا وسیع اور غیر آباد رقبہ بھی فوجی اہمیت کا حامل ہے۔ آسان الفاظ میں سمجھا جائے تو پچاس راکٹ اسرائیل میں انتہائی درجے کی تباہی مچا سکتے ہیں وہ عرب اتحاد کے صرف ایک حصے کو جزوی طور پر نقصان پہچائیں گے۔ لیکن زمینی حقائق اس سے متضاد ہیں عرب اسرائیل جنگ میں عرب مٹی کے کھلونے ثابت ہوتے ہیں جنہیں اسرائیل نیست و نابود کر کے رکھ دیتا ہے آخر اس کی کیا وجوہات ہیں۔

سب سے پہلے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عرب ممالک کی اکثر بادشاہتیں کامیاب فوجی ا نقلابات کا نتیجہ ہیں۔ ان میں سے دس فیصد کسی دشمن فوج سے مقابلے کے بعد وجود میں آئیں جبکہ نوے فیصد اپنے ہی فوجی سربراہوں کے خلاف کامیاب بغاوت کا نتیجہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عرب سربراہان مملکت اہم فوجی اور سول عہدے دیتے ہوئے اہلیت سے زیادہ ذاتی وفاداری کو ترجیح دیتے ہیں۔ اب ایک فوج کے جرنیل کو دوران جنگ اپنے ہتھیاروں کی مکمل معلومات نہیں ہوں گی تو وہ کیا جنگ کروائے گا۔ ایک ٹینک کو کتنی ہارڈنیس والی زمین پر چلانا ہے اور اس سے کم پر سپیڈ کتنے پرسنٹ کم ہونے پر اس نقصان کا کیا ازالہ کرنا ہے یہ ایک قابل جنرل ہی فیصلہ کر سکتا ہے۔

اعتماد کا یہ فقدان فیصلوں میں تمام اہم عہدیداروں کی شمولیت نا ممکن بناتا ہے۔ ایک ذاتی وفاداری کا حامل جنرل اتنا اعتماد نہیں رکھتا کہ یونٹ اور کمپنی کے کمانڈروں کو اہم فیصلوں میں شریک رکھے چونکہ اس کی تربیت بنیادی لیول سے نہیں ہوئی ہوتے تو وہ ہائی لیول کے فیصلوں کو آسان الفاظ میں تشریح کر کے آگے نہیں پہنچا سکتا جس سے اس فیصلے یا منصوبے کے مفہوم لڑنے والے فوجیوں تک پہنچتے پہنچتے بدل جاتے ہیں۔

عرب بادشاہتوں میں ایک جنرل کو تمام اختیارات نہیں دیے جاتے جس سے چھوٹے یونٹ بہادری سے لڑنے کے باوجود ٹیکٹیکل سپورٹ حاصل نہیں کر سکتے۔ عرب اسرائیل صحرائے سینا کی جنگ اس بات کا سب سے بڑاثبوت ہے کہ بہادری سے لڑنے کے باوجود انفنٹری کا فضائیہ سے رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا جس کا فائدہ اسرائیلی ائیر فورس نے اٹھا کر صحرائے سینا کو مصری افواج کے ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا۔ صحرائے سینا کو فوجی کورسز میں مصر کا ویت نام کہا جاتا ہے۔

عرب افواج میں ایس او پی پر سختی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے جبکہ تمام اچھی فوجوں میں جنگی یا ایمر جنسی حالات میں مقامی کمانڈر کے پاس فیصلے کا اختیار ہوتا ہے۔ عرب افواج میں یہ مثالیں موجود ہیں کہ مرکزی کمانڈ کے فیصلے کے انتظار میں اہم مواقع گنوا دیے گئے۔ جبکہ کئی اچھے فیصلوں پر مقامی کمانڈروں کا کورٹ مارشل کر دیا گیا۔
مختصر یہ کہ لیڈر شپ ہی کسی فوج یا معاشرے کو لڑواتی ہے اور عرب دنیا میں اس کا بحران ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).