تبدیلی کے خواب دیکھنے والوں کو ابتری کی تعبیر ملی


دو ہزار اٹھارہ اپنے جلو میں بہت سے تلخ و شیریں واقعات اور بظاہر عام آدمی کی فہم سے بالاتر پر اسرار واقعات لیے بالآخر رخصت ہوا۔ بہت کچھ ایسا بھی ہوا جس کی توقع تو تھی مگر اس قدر برہنگی سے ہو گا اندازہ نہ تھا۔ سال ہذا کی ابتدا میں ہی سیاسی ہواؤں کی سمت سے اندازہ تھا، کس کا آنگن گل و گلزار ہونے والا ہے، کس کی ہری بھری فصل اجڑنے میں کوئی ابہام نہیں رہا۔ قابل ذکر واقعہ دو دہائیوں سے وزارت عظمی کی جستجو میں رہنے والے عمران خان کی خواہش کی تکمیل رہا۔

اظہر من الشمس حقائق بلکہ نوشتہ دیوار لکھے ہونے کے باوجود، کم فہموں کو اپنے سیاسی بتوں سے امید تھی شاید وہ پھر گڈی آسمان پر چڑھانے کی تدبیر نکال لیں۔ مسلم لیگی کارکن اور رہنما جب وقت قیام تھا، اس وقت بھی میاں شہباز شریف کی ”چائنہ کو متاثر کرتی اسپیڈ“ پر تکیہ کر کے بے فکر لیٹے رہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے جیالوں کی خوش گمانی کی بنیاد عام انتخابات سے قبل زرداری کی طرف سے بلوچستان میں دکھائی کرشمہ سازی، سینیٹ میں اپنی جماعت کے معزز لوگوں کو آگے بڑھانے کے بجائے نجانے کس کی تابعداری میں صادق سنجرانی کے لیے راہ ہموار کرنے کے بعد یہ تھی کہ اب اکیلے زرداری کو سب پر بھاری پڑنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پھر بھی اگر یہ ممکن نہ ہو سکا، تو یقین تھا کہ کم از کم حصہ بقدر جثہ تو پیپلز پارٹی کو حکومت میں لازم ملے گا۔

خواہشیں اور خوش گمانیاں محظ سراب رہیں۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے مضحکہ خیز سیاستدان جو چینلز کو ریٹنگ فراہم کرنے اور غیب سے حاصل ہوئی معلومات کی بنیاد پر پیشگوئیوں میں ماہر تصور ہوتے ہیں، ان کے کہے کے عین مطابق جھرلو پھر گیا۔ مسلم لیگ ن وفاق کے ساتھ اپنے بیس کیمپ تخت لاہور سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی۔ زرداری صاحب اور ان کی جماعت بھی اس عاشقی میں عزت سادات (لفظ عزت اور سادات دونوں سے معذرت کے ساتھ) گنوا بیٹھے۔

صاف لفظوں میں کہیں تو، مختصر وقفوں کے ساتھ تین دہائیوں سے باریاں لیتی دونوں جماعتوں کی بتی گل ہو گئی۔ انتخابی نتائج پر ابتدا میں مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی، حاصل بزنجو اور محمود اچکزئی کی تحریک پر ہاہا کار مچی مگر دونوں بڑی پارٹیاں، اپنے دامن داغدار پر نظر کرتے ہوئے جتنا ملا اسی پر اکتفا کر کے راضی ہو رہیں۔ سیاسی بنیادوں پر تقسیم سوچ رکھنے والے ہمارے معاشرے میں کسی بھی انتخاب کے نتائج کو تسلیم عام کی سند ملنا دشوار ہے، لہذا یہ ماننے میں بھی کوئی عار نہیں ہونا چاہیے کہ حالیہ انتخابی صورت گری کے پس پردہ دیگر عوامل کے ساتھ عمران خان کی طرف سے بتکرار دونوں بڑی جماعتوں کو چور ڈاکو اور عوامی استحصال کا ذمہ دار قرار دینا بھی بہت حد تک دخیل تھا۔ نوجوان ذہن پراپیگنڈے اور جذباتیت کا جلد شکار ہو جاتے ہیں، اور یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ تحریک انصاف کے ووٹ بنک کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔

قائد انقلاب نے لہذا ان کے جذبات سے بھرپور کھیلا، انہیں سبز باغ دکھائے کہ ایک کروڑ نوکریاں بانٹیں گے، پچاس لاکھ گھر غریبوں کے لیے تعمیر ہوں گے۔ کوئی بے گھر نہیں رہے گا۔ عوام کی صحت پر کمپرومائز نہیں، غریب کو دوا مفت فراہم کریں گے۔ تعلیم کا معیار یکساں ہو گا اور امیر و غریب ہر بچے کو برابر مواقع دستیاب ہوں گے۔ ریاست ہو گی ماں کے جیسی، انصاف سب کو دہلیز پر میسر ہوگا۔ کوئی جرم بیگناہی میں سزا نہیں کاٹے گا۔

جس کا کوئی پرسان حال نہیں، ریاست اس کا مقدمہ خود لڑے گی۔ پہلے والوں نے قوم کو بھکاری بنا دیا ہم نہ کشکول اٹھائیں گے اور نہ قومی وقار گروی رکھیں گے۔ یہی ملک ہوگا یہی معیشیت، قرض کے بغیر چلے گا بلکہ ترقی کی شاہراہ پر دوڑے گا۔ کرپشن ایک ناسور جو معیشیت کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی اصل وجہ، اس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔ حکومت رہے نہ رہے، لوٹی دو سو ارب ڈالر دولت ضرور واگزار ہو گی۔ زرعی میدان میں ایمرجنسی اقدامات ہوں گے۔

پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کر دیا جائے گا۔ بیوروکریسی کو فری ہینڈ ہوگا، قائد اعظم کے فرمان کے مطابق وہ حکومت کے بجائے ریاست کی وفادار ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ سب کام حکومت کے ابتدائی سو دنوں میں بڑی حد تک مکمل ہو جائیں گے۔ بس کم از کم سو دن حکومت کو اطمینان سے کام کرنے دیا جائے اس کے بعد ہم خود اپنی کارکردگی عوام کے سامنے پیش کریں گے۔ تاریخ شاہد ہے یہ ملک عزیز کی شاید واحد حکومت ہے جس کو اتنی فرینڈلی اپوزیشن ملی، تمام ادارے اس کی پشت پر ہیں۔ میڈیا کی ایسی مشکیں کسی جا چکی، مخالفانہ آواز کہیں سے سنائی نہیں دیتی۔

اسی باعث دل ناداں نے واقعتا تبدیلی کی امید باندھ لی اور اس تبدیلی کے مظاہر دیکھنے کے لیے قائد انقلاب کی ڈیڈ لائن مکمل ہوتے ہی پہلی فرصت میں فقیر نے رخت سفر باندھا۔ ناسازی طبیعت کے باوجود بائی ایئر یا پبلک ٹرانسپورٹ کے بجائے ذاتی گاڑی پر سفر کو ترجیح دی۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے، شرقا غربا اور شمالا جنوبا پورے ملک میں پھرا۔ ہر صوبے، شہر حتی کہ قابل ذکر گاؤں میں بھی لوگوں سے میل ملاقات کی۔ سرکاری دفاتر، ہسپتال، اسکولز، پولیس چوکیوں، دکانداروں اور ڈھابوں تک نگاہ دوڑائی۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں، ہر سال کے آخر میں اس فقیر کا یہی معمول ہے۔ بلا مبالغہ ملک کے ہر کونے میں کاروبار حیات اور عام آدمی کی زندگی پہلے سے ابتر اور دگرگوں نظر آئی۔ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص انقلابی حکومت کو کوستا اور سر پیٹتا نظر آیا، اور یہ منظر کیوں نہ ہوتا؟ اعداد و شمار سامنے ہیں دیکھ لیں، اسٹاک مارکیٹ، جی ڈی پی گروتھ روٹ، افراط زر، روپے کی بے قدری اور کاروباری مندی دیدہ بینا ہو تو سب کچھ سمجھا دے گی۔ ”قومی سلامتی“ کے اداروں سے متعلقہ افراد سے ملاقات میں انہیں بھی اس صورتحال پر کسی حد تک متفکر دیکھا۔ ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے احباب، جن کی زبانیں انقلاب کی مالا جپتے نہ تھکتی تھیں، وہ بھی شرمسار شرمسار نظریں چراتے ملے۔

وہی نوجوان جنہیں کندھوں پر اٹھا کر عمران خان کو وزیراعظم ہاؤس پہنچانے کے گناہ کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا، اشتعال ان کے ذہنوں میں ابلتا دیکھا۔ بیروزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں وہ بہت تنگ ہیں۔ قائد انقلاب کی وعدہ فراموشیوں کو بالکل معاف کرنے پر تیار نہیں۔ لیکن انہیں سیاسی درجہ حرارت بڑھانے اور محاذ آرائی سے فرصت ملے تو اس طرف دھیان ہو۔ گورنر راج کی دھمکیوں اور وزیراعلی سندھ کی تبدیلی سے کون سی لاٹری نکلے گی یا ڈالرز بھری لانچیں واپس آئیں گی، فہم سے بالاتر ہے۔

یہی اطوار و لچھن برقرار رہے، بے یقینی میں اضافے سے رہی صحیح کاروباری سرگرمیاں ماند پڑجائیں گی۔ استعمال ہی نہ کرنے کی اجازت، یا مہنگی ترین شرح سود پر ”دوست ممالک“ سے ملے قرض کی بدولت زرمبادلہ میں مصنوعی اضافہ معیشیت کی بہتری اور لاروں کی تکمیل کو کافی نہیں۔ انقلابی حکومت اگر برقرار رکھنی ہے تو آج نہیں تو کل دھنیا پینا پڑے گا ورنہ لڑتے لڑتے سب کی چونچ اور دم غائب ہو گی اور سنجی گلیوں میں بسیرا کسی اور کا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).