خدمت خلق فاؤنڈیشن کی بھتہ خوری کا 39 برس بعد انکشاف


فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے ) کی جانب سے مورخہ 3 جنوری کو ایم کیو ایم کے ماتحت چلنے والے فلاحی ادارے خدمت خلق فاؤنڈیشن پر دائر ہونے والے منی لانڈرنگ کیس میں اہم پیشرفت سامنے آئی۔ ایف آئی اے نے خدمت خلق فاؤنڈیشن (کے کے ایف) کی ساڑھے تین ارب روپے مالیت کی جائیدادیں ضبط کیں اور انکشاف کیا کہ تمام عمارتیں اور جائیدادیں بھتے کی رقم سے بنائی گئیں۔

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے ) انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد کی جانب سے خدمت خلق فاؤنڈیشن کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات ایک ٹیم کررہی ہے جس کی سربراہی انسداد دہشت گردی ونگ کے سربراہ مظہر کاکا خیل کے پاس ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق 29 جائیدادیں ساڑھے تین ارب سے زائد مالیت کی ہیں جو کراچی کے مختلف علاقوں میں بھتے کی رقوم جمع کر کے بنائی گئیں۔

حکام کے مطابق ان جائیدادوں سے حاصل ہونے والی رقوم سے دو بڑے کام کیے جاتے تھے، کرائے کی مد میں آنے والی رقم سے ایم کیو ایم شہداء اور اسیران کے خاندانوں میں ماہانہ رقوم تقسیم کی جاتی تھیں جبکہ بقیہ رقم 6 کے قریب سہولت کاروں (بابر غوری، خواجہ سہیل منصور اور سینیٹر احمد علی و دیگر) کے ہاتھوں لندن بھیجی جاتی تھیں۔ ایف آئی اے نے یہ بھی انکشاف کیا کہ جائیدادوں میں جعلی ناموں کے ذریعے بھی ٹرانزیکشنز کی جاتی رہیں۔

ایف آئی اے کے مطابق کے کے ایف کو فی الحال امداد کی مد میں رقم روکنے کی کوئی ہدایت نہیں کی گئی۔ اس سے قبل ایف آئی اے نے 726 افراد کو اخبارات کے ذریعے پبلک نوٹس جاری کیے تھے جن میں فیصل سبزواری، وسیم اختر سمیت دیگر ایم کیو ایم پاکستان کے مرکزی رہنماؤں اور پی ایس پی کے قائدین کا نام شامل ہے۔

کے کے ایف پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ ضابطہ فوجداری کے تحت درج ہے اور مقدمے کی تحقیقات مکمل ہوتے ہی ایم کیو ایم رہنماؤں کی گرفتاری کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔

خدمت خلق فاؤنڈیشن کا پس منظر

سن 1979 میں بانی ایم کیو ایم نے طلبہ تنظیم اے پی ایم ایس او کے قیام کے بعد ’خدمت خلق کمیٹی‘ تشکیل دی جس نے بنگلہ دیش سے آئے مہاجرین میں امداد تقسیم کی، دیکھتے ہی دیکھتے اس ادارے کے کام تیزی سے پھیل گئے اور پھر سن 1989 میں اس کے مرکزی دفتر کا افتتاح کرتے ہوئے نام ’خدمت خلق فاؤنڈیشن‘ کردیا گیا۔

خدمت خلق فاؤنڈیشن رمضان اور عید الضحیٰ کے موقع پر شہر کراچی اور جہاں جہاں ایم کیو ایم کا تنظیمی سیٹ اپ تھا وہاں سے عطیات یا چندہ جمع کرتی تھی جبکہ اس کا مرکزی پروگرام بائیس اگست سے قبل جناح گراؤنڈ میں رمضان میں منعقد ہوتا تھا جس میں لوگوں کو مختلف اشیاء (سلائی مشینیں، وہیل چیئرز، واشنگ مشین، راشن) و دیگر تقسیم کی جاتی تھیں۔

کے کے ایف کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں مصطفیٰ کمال بھی شامل رہے اس کے علاوہ فاروق ستار بھی ڈائریکٹر رہ چکے، ہر سال منعقد ہونے والے پروگرام میں وفاقی یا صوبائی حکومت کے نمائندے بطور مہمان خصوصی شریک ہوتے تھے اور لوگوں میں چیزیں تقسیم کرتے تھے۔

کے کے ایف کی خدمات کو نہ صرف ملکی سطح پر سراہا گیا بلکہ بین الاقوامی فلاحی تنظیموں نے بھی فلاحی پروجیکٹس کو قدر کی نگاہ سے دیکھا، 2005 میں آنے والے زلزلے میں خدمت خلق فاؤنڈیشن نے امدادی سامان سی ون تھرٹی طیارے میں کراچی سے بھیجا اور اسلام آباد میں انتظامیہ کے حوالے کیا جبکہ مختلف اوقات میں سرکاری و نجی ٹی وی شوز میں اس کی خدمات کا اعتراف بھی کیا گیا جو ریکارڈ کا حصہ ہے۔

ویسے بھی اب کے کے ایف کی حالتِ زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ایم کیو ایم کی مقامی قیادت کو اس ادارے یا فلاحی کاموں سے دلچسپی نظر نہیں آتی یہی وجہ ہے کہ کے کے ایف نے اپنی ایمبولینسز بھی بولی لگاکر فروخت کیں جبکہ مرکزی دفتر میں گرد و غبار نے ڈیرہ ڈالا ہوا ہے۔

اس کے علاوہ بھی بہت سی ایسی خدمات ہیں جو یقیناً حکمران شہر کے مقتدر لوگوں کو معلوم ہوں گی، فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی چونکہ ابھی اس کیس کی تحقیقات میں مصروف ہے، ابھی نہ جانے اس مقدمے کی کتنی سماعت ہوں اس بات کا علم بالکل بھی نہیں ممکن ہے یہ کیس طویل چلے یا پھر اس کو ایک دو ماہ میں حل کردیا جائے۔ برطانیہ سے چونکہ معلومات کے تبادلے کا معاہدہ بھی ہوچکا ہے وہ کیس کی تحقیقات میں اہم پیشرفت لا سکتا ہے۔

تحقیقاتی ادارے کو اپنی تفتیش میں اُن مقتدر لوگوں کو بھی شامل کرنا چاہیے جو کے کے ایف کے مرکزی پروگراموں میں شامل ہوئے یا پھر اُن کی خوبیاں بیان کیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو ممکن ہے کیس اور جلدی شفاف طریقے سے حل ہوسکے اور تحقیقاتی پیشرفت کو میڈیا سے دور رکھیں کیونکہ اس سے ایک بار پھر ہمدردی کا عنصر پیدا ہوسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).