کہاں رہ گئی یہ زباں آتے آتے


اردو کی پیدائش بر صغیر میں ہوئی اور اس کے دورِ پیدائش اورجائے پیدائش کے بارے میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اردو کو پہلے پہل ریختہ کہاکرتے تھے جس کے معنی اختراع یا ایجاد ہے اور اس کی ترکیب میں آدھا مصرعہ فارسی اور اور آدھا ہندی کا ہوتا تھا۔ امیر خسرو کا“ذحال مسکین مکن تغافل“ ریختہ کی خوبصورت مثال ہے۔ نسوانی ذوق کے دلدادہ لکھنوی لوگوں نے اسے ریختی بنا دیا۔ پھر شاہ جہان کے دور میں اردوئے معلیٰ اور اب صرف اردو کہتے ہیں۔

چونکہ یہ بر صغیر کی افواج کے میل جول سے پیدا ہوئی اس لئے اسے اردو کا نام بمعنی لشکر دیا گیا۔ بہت سے لوگوں نے اس کا شجرۂ نسب مختلف خطوِں سے جوڑنے کی کوششیں کیں۔ محمود شیرانی اسے پنجابی زبان جبکہ سلمان ندوی سندھی زبان کی بیٹی کہا کرتے تھے۔ نصیر الدین ہاشمی دکنی اور شوکت سبزواری دہلوی وبِرج بھاشا کی اولاد سمجھتے تھے۔ یمین الدین المعروف امیر خسرو، قلی قطب شاہ، ولی دکنی مہ لقا چندا اور سراج اورنگ آبادی نے اردو کو اپنے کلام کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔

ابتدا میں اسے ہندوی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا۔ بعد ازاں خطِ نسخ رائج ہو ا جبکہ شاہ جہان نے خط نستعلیق جاری کرایا۔ چونکہ اردو کے اصل اسماء عر بی وفارسی سے لئے گئے ہیں لہٰذا اسے مسلمانوں کی زبا ن جانا گیا اور کبھی کبھار تعصب کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ یہاں تک کہ 1867 میں بنارس میں اردو ہندی جھگڑے میں قتل و غارت تک ہو گئی۔ تھوڑے عرصہ بعد گل کرسٹ نے فورٹ ولیم کالج قائم کرکے اردو کی محرومیوں کے زخموں پر خوب مرہم رکھے اور اس کی گرامر پہ بھی توجہ دی گئی۔

پھر اردو کے عروج کا دور آیا۔ میر، درد، غالب، مومن، انیس و دبیر، آزاد، حالی اقبال اور سینکڑوں قدر دان اس زبان کے ذریعے بام عروج تک پہنچے۔ پاکستان بنا تو طے ہوا کہ اس نئے اسلامی ملک کی قومی زبان اردو ہوگی۔ دس برس بیتے بیس سال گزرے مگر اردو کو اس کا مقام نہ ملاپر قومی زبان بننے کا مژدہ تواتر سے سنائی دیتا رہا۔ آئین بنے، تعلیمی کانفرنسیں ہوئیں لیکن یہ نظر انداز ہوتی رہی۔ بلکہ کچھ مقامی زبانیں حسد کے مارے اردوسے جلنے لگیں جبکہ انگریزی نے سوتن بن کر اردوکے دیس میں قبضہ جمائے رکھا اوراب بہتر سال ہوگئے پر اردو کو قومی زبان کا درجہ نہ مل سکا۔

اب تو عدالت عالیہ نے بھی اردو کے حق میں فیصلہ صادر کر دیا ہے مگر افسوس کہ اردو کے حق میں فیصلہ انگریزی زبان میں لکھا گیا۔ قومی زبان ہونے کا خوب واویلا ہوا مگر اردوسے سوتیلوں والا سلوک روا رکھا گیا، اس پر مؤثر تحقیق نہ کی گئی۔ دنیا کی جدت کے مقابلے کے لئے اردو کی تیاری نہ ہوسکی۔ ترقی یافتہ زبانوں کی بیشتر اصطلاحات سے مطابقت کی کوششیں بھی نہ ہونے کے برابر رہیں۔ اردو کے دعویداروں نے اسے نقصان بھی پہنچایا۔

بعض نے تواس کا حلیہ تک بگاڑا۔ المیہ تو یہ ہے کہ اردو کے حروفِ تہجی پر بھی مکمل اتفاق نہیں ہوا۔ 34، 37، 45 اوراب 52 حروف پہ بحث ہوتی رہی۔ تلفظ کے ساتھ توہین آمیز روٗیہ اپنایا گیا۔ بِرج بھاشا کو بُرج بھاشا پڑھا گیا۔ سب سے زیادہ نقصان صحافیوں، ٹی وی چینلوں اور معمارانِ قوم نے پہنچایا ہے۔ اسے آسان ترین مضمون سمجھ کرتوجہ نہیں دی جاتی۔ باقی مضامین میں ناکام لوگ اردو کی طرف آکر اس کابیڑہ غرق کر رہے ہیں۔ اگر کو ئی شوق سے آئے تو اس پہ طنز کے نشتر برسائے جاتے ہیں۔

اکثر اساتذہ اردو کو سمجھے بغیر رسماً پڑھاتے ہیں جس سے الفاظ، تلفظ اور لہجے کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوتا ہے۔ اعلیٰ ڈگریوں کے ڈھیر لے کر بھی اردو سے نابلَد ہیں اور نئی نسل تک پہنچانے میں اپنے فرائض سے گریزاں ہیں۔ لفظی اسراف تو معمول کی بات ہے۔ آج بھی طلباء کو درخواست لکھاتے وقت“ جناب پرنسپل صاحب“ بتایا جاتا ہے حالانکہ جناب اور صاحب ایک مفہوم کے حامل ہیں اور جناب پرنسپل لکھنا کافی ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ کہ خاتون افسر کو“ جنابہ“ لکھ کر مخاطب کیا جاتا ہے جس کے معنی ناپاکی کے ہیں اور جناب لکھنا ہی مناسب ہے۔

کچھ احباب ناشتے کو صبح کا ناشتہ کہتے ہیں۔ بھلا ناشتہ صبح کے علاوہ ہوتا ہی کب ہے۔ مشاعرہ کا مطلب ہی شعرو ں کی محفل ہے مگر محفلِ مشاعرہ کہا جاتا ہے۔ شبِ برات کو شبرات کی رات اور یومِ شہادت کو فلاں کے یوم شہادت کے دن سے موسوم کیا جاتا ہے۔ خوش آمدید میں یائے مجہول کی جگہ یائے معروف لگاتے ہیں۔ ، ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے“میں ہوں کو ہُوں بولا جاتا ہے۔ کا رروائی کو کاروائی لکھتے ہیں۔ دوران ِ تدریس، حَمْدْ، (حَ مْ دْ) کو حَمَد، (حَ مَ د) “ عِلم“ کو عِلَم، اَخلاق کو اِخلاق، نَظم کو نَظَم (نَ ظَ م) ، عَلامہ کو عِلامہ اور، غَلَط کو غَلْط پڑھایا جارہا ہے۔

اردوسے انصا ف کیا جائے اور اساتذہ کے ترپیتی کورسسزمیں کی ادائیگی پر محنت کی جائے مگر دیکھا گیا ہے کہ ان کورسسز میں ماسٹر ٹرینر بھی ان صلاحیتوں سے بے بہرہ ہیں اور ان میں سے اکثر اضافی ڈیوٹیوں کے شائق ہیں اور اپنے سکولوں میں پڑھانے کے عادی نہیں ہی۔ ان حالات میں میر تقی میر بہت یاد آتے ہیں جو اردو کی کم سوجھ بوجھ رکھنے والوں سے زبان کی صحت بگڑنے کے اندیشے کے پیشِ نظر گفتگو نہ کرتے تھے۔ الفاظ کو ناپ تول کر بولنا چاہیے کیونکہ حضرت علیؓکا قول ہے کہ الفاظ انسان کے غلام ہوتے ہیں مگر بولنے سے پہلے، جبکہ بولنے کے بعد انسان لفظوں کا غلام بن جاتا ہے۔ پاکستان سے کہیں زیادہ ا ردو کا خیال انڈیا میں رکھا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں مشہور بھارتی شاعر اقبال اشعر کی اس نظم کے چند اشعار قابِل ذکر ہیں جن میں اردوکی آپ بیتی اردو ہی کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔

: اردو ہے میرا نام میں، خسرو کی پہیلی۔ میں میر کی ہمراز ہوں غالب کی سہیلی
دکن کے ولی نے مجھے گودی میں کھلاِیا سودا کے قصیدوں نے میرا حسن بڑھایا
ہے میر کی عظمت کہ مجھے چلنا سکھایا میں داغ کے آنگن میں ِکھلی بن کے چنبیلی
۔ ۔

غالب نے بلندی کا سفر مجھ کو سکھایا حالی نے ُمروَّت کا سبق یاد دلایا
اقبال نے آئینہء حق مجھ کو دکھایا اکبر نے رچائی میری بے رنگ ہتھیلی
۔ ۔

کیو ں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ مجھ کو توکبھی آپ نے اپنا نہیں مانا
دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیو ں کا زمانہ اپنے ہی وطن میں ہوں مگر آج اکیلی

اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی قوم کی زبان اس کی اساس اور پہچان ہوتی ہے مگر یاد رہے کہ زبان بذات خود اپنی اہمیت نہیں منوا سکتی جب تک کہ زبان بولنے والی قوم کے لوگ اپنی خوبیوں، رویوں اور ترقی کی علامات کے ذریعے اپنا لوہا نہ منوا لیں۔ طاقت اور دبدبہ کسی زبان کو اہم کرنے اور دوسروں پر مسلط کرنے کا بڑا ذریعہ رہا ہے۔ جس قوم نے دنیاوی ترقی کی، اس کی زبان کی طوطی بھی بولتی رہی۔ مسلمانوں کے عروج کے ادوار میں عربی اور فارسی دفتری زبانیں تھیں۔

چین اور جاپان بھی اپنی زبانوں پہ انحصار کئیے بیٹھے ہیں اور انگریزی اصطلاحات پر پابندی کاسوچ رہے ہیں۔ انگریز وں کی ادبی، سائینسی اور معاشی ترقی نے انگریزی کو عالمگیریت بخشی تبھی تو انگریز قوم دست دراز ہو نے کے ساتھ ساتھ زبان دراز بھی واقع ہوئی ہے۔ ادھر ہم محض در خشا ں ماضی اورادبی روایات کے باعث اردو کے عروج کی خواہش رکھتے ہیں۔ ہم نے سائینس، ٹیکنالوجی، صنعت اور زراعت میں کون سے ہمالے فتح کئیے ہیں کہ دنیا ہماری زبان کی محتاج ٹھہرے۔

قیام پاکستان سے ہی اردو کو قومیانے کی باتیں جاری ہیں اور آئین میں بھی عزم موجود ہیں۔ اشرافیہ اور عوام بول چال میں اردو اصطلاحات کے استعمال سے گریز بلکہ شرم تک محسوس کرتے ہیں۔ جبکہ انگریزی کی ملاوٹ فخریہ کرتے ہیں۔ عوام کی اکثریت اردو کی اصطلاحات اور تلفظ سے نا بلد ہے۔ یہ صرف خواص کی زبان رہی ہے تبھی تو اسے اردوئے معلی کہا جاتا تھا۔ یہ خسرو کی پہیلی اورغالب کی سہیلی ہے۔ اگر ہم اردو کا نفاذ چاہتے ہیں تو اسے اردوئے معلی کی بجائے“اردوئے محلہ“ بنانا ہوگا۔

ہمارے روزمرہ معاملات میں کہیں بھی اردو کا مکمل استعمال نظر نہیں آتا۔ کیا ہم دفتری و سماجی اصطلاحا ت کو اردو میں بدل کر عام بول چال کا حصہ بنانے میں عار تو محسوس نہیں کریں گے۔ کیا جب انگریزی اردو کی زد میں آجائے گی تو ہر بار لوڈ شیڈنگ کو برقی تعطل کہہ سکیں گے۔ پھر ٹی وی کو دور در شن اور ویڈیو گیمز کو بصری کھیل کہنا ہوگا۔ ریڈیو آلہ صوت ہوگا۔ کرکٹیریا کے مریض باؤلر کو گیند باز اور بیٹسمین کو بلے باز کہیں گے۔

نہ جانے وکٹ اور وکٹ کیپر کے لئے کون سے الفاظ احاطہ کر پائیں گے۔ ایل بی ڈبلیو“ٹانگ قبل از کلی“ کہلائے گا اور گول کیپر کو“محافظ مقام ادخال“ کہا جائے گا۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن، قومی کتابی بنیاد، ہوگی، پبلک سکول عوامی مدرسہ، یونین کونسل متحدہ شوری، سول کورٹس عدالت ہائے دیوانی اور چیف جسٹس، قاضی القضا جبکہ پبلک سروس کمشن“ شعبہ عوامی ملازمت“ ہوگا۔ ٹیو ب لائیٹ ضیائی نلکی جبکہ انرجی سیور محافظ توانائی بن جائے گا۔

اگر کمپیوٹر کی ونڈو خراب ہوئی تو بازار میں یوں مخاطب ہوں گے “ ، بھائی میرے شمار کنندے کاچوہا کام نہیں کر رہا لگتا ہے اس کی کھڑکی بد عنوان ہوکر اڑ گئی ہے اب کھڑکی سات کی تنصیب نو کروانا ہے۔ بینک کو بیت الزر کہہ لیں گے مگر موبائیل فون، سم اور پینا فلیکس کی بابت کچھ پریشانی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دیگر معاملات حیات کی طرح ہم نے ترویج اردو کے لئے کچھ نہیں کیا بلکہ اردو سپیکنگ لوگ اور اساتذہ تک اردو کی صحت، لہجے اور اسلوب پر الٹا گراں گزرے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ داغ دہلوی نے کڑوا سچ بولا

نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
شاید اس لئے اتنی مدت بعد بھی اردو کا آنا نظر نہیں آتا۔ لگتا ہے ہم بھی یہ سوال لئے گزر جائیں گے کہ۔
کوئی داغ سے پوچھ کر یہ بتا دے کہاں رہ گئی یہ زباں آتے آتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).