شریف خاندان اور احسان فراموشوں کی فہرست


کہتے ہیں وقت سب سے بڑا مرہم ہے یہ جیسے جیسے گزرتا ہے آپ کے زخم ٹھیک ہوتے چلے جاتے ہیں مگر شاید سیاست میں گنگا الٹی بہتی ہے۔ یہاں ہر گزرتا لمحہ زخموں کو پھر سے تازہ کردیتا ہے۔ کون جانتا تھا کہ کہانی یہ رخ بھی اختیار کرے گی جب تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم رہنے والے نواز شریف قید میں ہوں گے تووہ سب کردار جو ان کے ارد گرد منڈلاتے دکھائی دیتے تھے غائب ہوجائیں گے۔ شاید ہی کسی نے سوچا ہو وہ لوگ جو شہباز شریف کے آس پاس رہنے کے خواہشمند رہے اس مشکل گھڑی میں اب وہ کہیں دور بھی دکھائی نہیں دیتے۔

نواز شریف کی نا اہلی سامنے آئی تو پارٹی قیادت کا بوجھ سخت گیر منتظم شہباز شریف کے کندھوں پر آیا۔ نیب نے نئے پارٹی سربراہ کے گرد گھیرا تنگ کیا تو لگتا تھا ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ لگانے والے انقلابی اب چپ نہیں رہیں گے۔ مگر یہ سب دیوانے کا خواب ثابت ہوا شہباز شریف کی عدالت پیشیوں پر وہ سب انقلابی غائب تھے۔ مسلم لیگ ن کے سربراہ پیشیاں بھگت رہے تھے مگر اسی شہر میں ن لیگ سے 2 قومی اسمبلی کی اور 2 صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ وصول کرنے والے ”کھوکھر خاندان ’‘ کے کسی فرد کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ اپنے لیڈر سے اظہار یکجہتی کے لیے عدالت کو جانے والی کسی شاہراہ سے گزرتے۔

الیکشن سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف کا ڈھول پیٹنے والے سید مشاہد حسین بھی صرف گفتار کے غازی نکلے۔ ان پیشیوں پہ آنے والے زیادہ تر چہرے سب کو یاد ہیں۔ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے منشا اللہ بٹ کو کون بھول سکتا ہے جو سہارے کے ساتھ چلتے ہیں مگراپنے لیڈر کے کٹھن وقت میں سب سے پہلے پہنچتے تھے، اسی طرح بلال تارڑ، ذیشان رفیق، عادل چٹھہ، توفیق بٹ، امان اللہ وڑائچ، عبدالمجید چن اور سب سے بڑھ کر شفقت پاندہ یہ وہ کارکن تھا جسے پارٹی ٹکٹ نہ دیا گیا، توجہ نہ دی گئی مگر وہ پھر بھی قائد کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے نیب عدالت کے باہر موجود ہوتا تھا۔

ستم تو یہ ہے جن لوگوں کو لاہور میں بارہا ن لیگ نے ٹکٹ دے کر اسمبلیوں میں پہنچایا ان میں سے کوئی بھی ان پیشیوں میں نظر نہیں آیا۔ لاہور کے صدر پرویز ملک، جنرل سیکرٹری خواجہ عمران نذیر کے ساتھ پہنچتے رہے مگر شاید ہی انھوں نے اس شہر سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ایوان میں پہنچنے والوں سے اس متعلق پوچھا ہو۔ حیرت کی بات یہ ہے میڈیا کے محاذ پر ن لیگ کا دفاع کرنے والی مریم اورنگزیب میاں نواز شریف کی ہر پیشی پر اور شہباز شریف کی پیشیوں پر ہمیشہ پہنچتی رہی۔

مجھے پارٹی کے وہ لیڈر بھی یاد آئے جو کہتے تھے بی بی کو پارٹی ترجمانی دے کر بیڑا غرق کردیا گیا ہے مگر مریم اورنگزیب نے اس کڑے وقت میں اپنے آپ کو منوا کر ان سب کو غلط ثابت کردیا۔ سچ پوچھیں تو ان رہنماؤں کو لاہورمیں رہتے ہوئے پارٹی کے سربراہ سے اظہار یکجہتی کی توفیق اور ہمت نہ ہوئی۔ کسی نے کہا تھا سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق سلاخوں کے پیچھے گئے تو یہ حقیقت بھی کھلی کہ سیاست کے سینے میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔

خواجہ برادران کی پیشیوں پر ن لیگ لاہور کے خواجہ عمران، خواجہ حسان کے علاوہ کسی لیڈر یا رکن اسمبلی نے آنا مناسب نہ سمجھا۔ خواجہ سعد رفیق کے حلقے سے کارکنان آئے مگر یسین سوہل اور میاں نصیر احمد نہ آئے جنہیں ہر مرتبہ پارٹی ٹکٹ خواجہ سعد رفیق کی وجہ سے ملتارہا۔ pp 168 کے ضمنی انتخابات میں تازہ تازہ شکست کا غم لیے خالد قادری اپنے سیاسی مرشد خواجہ سعد رفیق کی محبت میں عدالت تک آئے اگر نہیں آئے وہ نہیں آئے جو آج سعد رفیق کی مہربانی سے اسمبلی میں ہیں۔

سوچتا ہوں نواز شریف پراور ان کی بیٹی مریم نواز پر کیا گزری ہوگی جب انہیں رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن اسمبلی کے متعلق بتایا گیا ہوگا کہ جس دن محترمہ کلثوم نواز کی میت پاکستان لائی گئی اس رات خاتون رکن سمیت، کراچی اور اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے دو پارٹی سینیٹرز، فواد چودھری اور دیگر دوستوں کے ساتھ ایک پارٹی میں مزے کر رہے تھے۔ ہر جمعرات کوکوٹ لکھپت جیل میں اپنے قائد سے ملنے والے پارٹی رہنما جب مختلف احسان فراموشوں کی خود ساختہ جلا وطنی اورشریف خاندان سے متعلق ان کے خیالات بتاتے ہیں تو میاں نواز شریف خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ شاید میاں صاحب سوچتے ہوں کہ اب کبھی وہ اقتدار میں آئے تو ان احسان فراموشوں کو اپنے اور اپنی بیٹی کے قریب نہیں آنے دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).