بزبان ٹرمپ مودی کی تذلیل پر خوش نہ ہوں، دور کی سوچیں


جب سے ہوش سنبھالا، خارجہ امور، پاکستان کے بین الاقوامی معاملات اور سویلین ملٹری تعلقات سے بہت دلچسپی رہی۔ جب سے لفظوں کی گھسیٹا کاری شروع کی اس دوران بھی یہ کوشش رہی جد و جہد کشمیر، پاک بھارت چپقلش، افغانستان کی صورتحال، بڑی طاقتوں کی خوشنودی کے لیے مفت میں ریاست کا پراکسی کردار، پڑوس اور خلیج کے ممالک میں سینڈوچ بنی حالت اور سویلین ملٹری تعلقات کو سمجھنے اور اپنی ناقص سوچ دنیا تک پہنچانے کی کوشش کروں۔

لیکن وہ کہتے ہیں نا بڑی مچھلی ہمیشہ چھوٹی مچھلی کو نگل لیتی ہے۔ یہی حال ہمارے ملک میں خبر اور ابلاغ کی دنیا کا ہے۔ دنیا میں تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی رجحانات، نئے اقتصادی اور عسکری بلاکس کی تشکیل، ماضی قریب تک متحارب تصور ہوتی قوتوں کی قربت اور صف دوستاں کو لشکر رقابت میں تبدیل ہونے کے پیچھے کار فرما عوامل سمجھنے کے بجائے سنسنی خیزی، چٹپٹی خبروں اور باہم دستاریں اچھالنے میں زیادہ دلچسپی ہے۔ بنیادی طور پر ہم چسکہ فروش قوم ہیں، اور اخبارات اور چینلز بھی کرنٹ افیئرز کے نام پر اس موضوع کو اچھالتے ہیں جہاں سے ریٹنگ کی امید زیادہ ہو لہذا نقار خانے میں طوطی کی صدا والے حال سے بچنے کے لیے فقیر نے خود کو زمانے کے چلن کے مطابق رکھا۔

گذشتہ ڈیڑھ سال سے سیاسی میدان میں اس قدر اتھل پتھل جاری ہے کہ الامان و الحفیظ، اس کے باوجود اپنے طبعی میلان کے مطابق لکھنے کی کوشش میں رہتا ہوں تاہم سستی کے باعث ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں۔ یہ تسلیم کرنے میں مجھے باک نہیں، اس کی وجہ میری لا علمی اور کم فہمی بھی ہے۔ پنجابی محاورے کے مطابق ”جیہنے لایا گلیں، اودے نال اڈ چلیں“ والا معاملہ میرے ساتھ ہے یعنی جو بات چل رہی ہو اس کی ہاں میں ہاں ملانا فقیر بھی شروع کر دیتا ہے۔

جیسا کہ دو سال قبل اندازہ ہوا ایم کیو ایم وطن دشمن اور الطاف حسین غدار وطن۔ فقیر نے بھی اس کے بخیے ادھیڑنے میں کسر نہ چھوڑی اور چڑھ دوڑا۔ جذبہ نیک تھا کہ ملکی معاشی شہ رگ کو مکروہ پنجے سے چھڑایا جائے۔ پھر سنائی دیا سندھ کی محرومی کی وجہ لانچوں اور ماڈل گرلز کے ذریعے اسمگل کیے ڈالر ہیں۔ ڈاکٹر عاصم پکڑائی دے چکے، عزیر بلوچ کا ملک دشمن ریکٹ بھی بے نقاب بس دو تین بڑوں کا پتہ پانی ہونا ہے اس کے بعد دائمی دلدرد دور لہذا یہاں بھی اپنا لچ خوب تلا۔ اسی ہنگام پانامہ کا دھماکہ ہوا، کچھ بھائیوں نے ڈھول پیٹے اب کالا دھن برآمد ہوگا ساتھ ملکی قرض چکتا ہونے کی سبیل بھی پیدا۔ ابتدا میں سب کو مستقبل ہرا بھرا نظر آیا، بعد میں کیا ہوا یہ کہانی پھر سہی۔

خیر آمدم بر سر مطلب، بھارتی وزیراعظم مودی نے بڑھک لگائی ہے کہ پاکستان محظ ایک آدھ جنگ سے سدھرنے والا نہیں۔ اسے ٹھیک ٹھاک سبق پڑھانے کی ضرورت ہے۔ اسی انٹرویو میں انہوں نے بتکرار پاکستانی سرحد پار سرجیکل اسٹرائیک کا ذکر بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا جس رات یہ سرجیکل اسٹرائیک ہوا، وہ انہوں نے جاگ کر گزاری اور ساری رات اس کارروائی کو مانیٹر کرتے رہے۔ تاہم بیان بازی سے آگے بڑھ کر وہ اپنے اس دعوے کا ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے۔

حالانکہ اگر انڈین کمانڈوز اتنی بڑی واردات کر کے رات کی تاریکی میں بحفاظت لوٹ گئے تو ان کے پاس نائٹ ویژن کیمرے ہونے لازم تھے تاکہ اپنی جنتا اور دنیا کو مطمئن کرنے کے لیے کچھ مواد لے کر جاتے۔ اس طوطا مینا کہانی پر بغیر ثبوت نہ تو دنیا نے یقین کیا اور نہ ہی کوئی با شعور بھارتی شہری اور سیاستدان یہ ماننے کو تیار ہے۔ قصہ یہ ہے کہ نریندر مودی ہندو انتہا پسندانہ جذبات ابھار کر اقتدار میں آئے تھے، اور ابھی بھی ان کے پیش نظر یہی حکمت عملی ہے۔

ورنہ پرفارمنس کے میدان میں ان کا حال پتلا ہے۔ معاشی میدان اور رشوت ستانی کے خاتمے میں نوٹ بندی جیسے بولڈ اسٹیپ کے بعد بھی کوئی معجزہ رونما نہ ہوا۔ میک ان انڈیا پالیسی بھی ثمر آور نہ ہوئی۔ رافیل کا مرثیہ بھی ختم تو نہیں ہوا یہ الگ ہے کہ اس سے متوقع سر بھی پیدا نہیں ہوا۔ حالیہ چار ریاستوں میں ہوئی انتخابی شکست کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں۔ بی جے پی کے سینئر رہنما سبرامینم اسی سبب کہہ چکے آئندہ انتخاب وہ کارکردگی نہیں بلکہ مذہبی اور نسلی تعصب ابھار کر جیتنے کی کوشش کریں گے۔

گئے وقت میں ڈراوا دینے کے لیے انڈیا کو کولڈ وار ڈاکٹرائین کا سہارا تھا۔ اچھے وقتوں میں مگر پاکستان نے بھی عالمی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ٹینس بال سے لے کر ریگولر سائز تک نیوکلیئر ویپن اپنے اسلحہ خانے میں جمع کر لیے تھے۔ سونے پہ سہاگہ ان کو ٹارگٹ پر ڈپلائے کرنے کے لیے لانگ رینج شاہین اور غوری کے سوا شارٹ رینج نصر بھی موجود ہیں۔ اب کسی ایڈونچر پر نکلی دشمن فوج کی کمپنی ہو یا مکمل ڈویژن۔ سب کا توڑ موجود ہے لہذا کم از کم یہ اطمینان رکھنا چاہیے کہ انڈیا چھوٹی موٹی سیز فائر کی خلاف ورزی کے سوا کسی بڑی حماقت کی بھول نہیں کرے گا۔ کوئی بھی مہم جوئی اس کے لیے خودکشی سے کم نہ ہو گی اور ایک سپاہی تک زندہ نہیں جا سکے گا۔

اس کا مگر یہ مطلب بھی نہیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا جائے۔ جب تک امریکا افغانستان میں بیٹھا ہے ہماری سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ اوپری سطح کی خبر نہیں، قومی سلامتی سے تعلق رکھنے جس لیول تک فقیر کی رسائی ہے وہ اس بابت کبوتر کی طرح آنکھ بند کیے ہیں۔ پاکستانی قیادت کے متعلق لچھے دار گفتگو اور مودی کے متعلق ریمارکس کا مذاق اڑانے سے قبل سوچنا چاہیے یہی ٹرمپ انڈیا کو اپنا اسٹریٹیجک اتحادی اور گذشتہ سال نئی امریکی سلامتی پالیسی میں جنوبی ایشیا میں اہم کردار سونپنے کا کہہ چکا ہے۔

الیس منکم رجل رشید۔ ہے کوئی صاحب فکر اس بارے سوچنے والا۔ ہمارے ایک ریٹائر ایئر مارشل کا بیان ریکارڈ پر ہے کسی جنگ کی صورت میں پاکستانی جہاز امریکی منشاء کے بر خلاف اڑان ہی نہیں بھر سکیں گے۔ اپنے ریڈار کی کارکردگی بھی ایبٹ آباد آپریشن میں دیکھ لی۔ باقی رہے میزائل تو وہ اپنے نشانے کا تعین لیزر گائیڈنس سسٹم کے علاوہ انفرا ریڈ گائیڈنس سسٹم، آپٹیکل گائیڈنس اور جی پی ایس سنگنلز کے ذریعے کرتے ہیں۔ یہ تمام بھی امریکی کنٹرول میں ہیں۔

باعث طمانیت ہے کسی حد تک کہ پاکستان اپنے بیلسٹک اور کروز میزائلوں کے گائیڈنس نظام میں چین کے گلوبل پوزیشننگ سسٹم ”بیڈو“ پر انحصار کا فیصلہ کر چکا مگر یاد رکھنا چاہیے یہ اب تک امریکن ٹیکنالوجی کا نعم البدل یا اس کی طرح قابل بھروسا نہیں۔ لہذا جتنا جلد ہو سکے اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے، افغان سر زمین پر خانہ جنگی کے تمام واہمے پرے پھینک کر خطے کی دیگر طاقتوں کو ساتھ ملا کر امریکا کو یہاں سے مکمل نکالنے کی تدبیر کرنی چاہیے۔

پس تحریر۔ درد دل رکھنے والوں کے اختلاف کو خدارا مخالفت پر محمول نہ کریں۔ وطن کی محبت ایمان کی طرح رگ رگ میں دوڑ رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).