صحافیوں کی نمائندگی کا حق پروفیشنل صحافیوں کو دیں گے یا پراپرٹی ڈیلروں کو؟


صحافیوں کو یقینی طور پر شعور ہے کہ نجی چینلز کی بہار کارگل کے بعد آئی تھی۔ نواز شریف آپریشن کی کامیابی کے بعد اس بہار کو خزاں میں تبدیل کرنے کا فیصلہ بھی انہوں نے کیا ہے جنہوں نے کبھی بھارتی میڈیا کو منہ توڑ جواب دینے کے لئے میڈیا کو آزاد کیا تھا۔

جو لوگ جانتے ہیں عام انتخابات میں عوامی ووٹ کی توہین کی گئی۔ جو لوگ جانتے ہیں الیکٹرانک میڈیا کے اینکرز کو پراپیگنڈہ کے لئے استعمال کیا گیا۔ جو لوگ جانتے ہین مولوی خادم کو مخصوص سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ جو لوگ جانتے ہیں جیپ کا انتخابی نشان دینے میں کسی نے کوئی کردار ادا کیا تھا۔ جو لوگ جانتے ہیں لبیک اور ملی مسلم لیگ بنانے کا فیصلہ نواز شریف کے ووٹ کاٹنے کے لئے کیا گیا تھا۔ جو لوگ جانتے ہیں نظام انصاف اور نیب کو مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، نواز شریف اور آصف علی زرداری کو ہدف بنانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے، وہ لوگ یہ بھی جانتے ہیں میڈیا میں ہزاروں لوگوں کی بے روزگاری کے پیچھے بھی ایک مخصوص حکمت عملی ہے۔

جس طرح کارگل کی جنگ میں پاکستانی میڈیا کو آزادی دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا اسی طرح اب اس آزادی کو واپس لیا جا رہا ہے۔ صحافتی تنظیموں میں کوئی طاقت ہوتی تو وہ میڈیا ہاوسز کے باہر مظاہرے کرنے کی بجائے ان سے درخواست کرتے جنہوں نے الیکٹرانک میڈیا کے اشتہارات کے ریٹ کم کر دیے ہیں۔ کاش صحافتی تنظیمیں ان کے ساتھ معاملات طے کرتیں جنہوں نے پرنٹ میڈیا کے اشتہارات کے واجبات روک رکھے ہیں اور نئے اشتہارات پر روک لگا دی ہے۔

صحافتی تنظیمیں اگر طاقتور ہوتیں تو وہ خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے مطیع اللہ جان، اعزاز سید، وحید مراد، عمر چیمہ ایسے صحافیوں کی جان کو لاحق خطرات کے متعلق انتباہی خطوط جاری ہونے کے معاملات کی حقیقت تک پہنچتی۔ کیا موجودہ صحافتی لیڈر شپ سے امید رکھی جا سکتی ہے وہ جی ایچ کیو کی بریفنگ میں میڈیا پرسنز کو ریاست مخالف قرار دینے کے طرز عمل کی مزاحمت کرتے۔ صحافیوں کو بے روزگاری سے بچنا ہے تو انہیں اپنی لیڈر شپ کے انتخاب میں شعور کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ قلم کی طاقت بندوق کی طاقت سے کہیں زیادہ ہے۔ اسلام آباد پریس کلب کے جاگو پینل میں وحید مراد بھی شامل ہے اعزاز سید بھی اور مطیع اللہ جان بھی، عمر چیمہ، اور احمد نورانی ایسے جانباز بھی اس گروپ کے ساتھ ہیں۔

خود ہمیں ائے روز دھمکیاں دی جاتی ہیں لیکن اپنے بچوں کے لئے ایک محفوظ، پر امن اور جمہوری پاکستان کے لئے ہم جھکنے کے لئے تیار نہیں۔ یہ تمام وہ صحافی ہیں جن کے دامن پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں بلکہ یہ تمام پروفیشنل صحافی جبر اور خوف کے باوجود میڈیا کا فخر بنے ہوئے ہیں۔

دنیا میں آج پاکستانی صحافت کی عزت برقرار ہے تو وہ انہیں صحافیوں کی وجہ سے ہے جو اپنے قلم کا سودا نہیں کرتے بلکہ خطرات، دھمکیوں اور دباؤ کے باوجود سچ کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں معاشرہ کو تصویر کو دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسلام آباد پریس کلب کے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کے ایوانوں سے انتخابی مہم کا آغاز کرنے والے اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کے چکر میں ہیں جس کے سبب میڈیا آج بیمار ہے اور ہزاروں میڈیا پرسن بے روزگار ہو چکے ہیں۔ اپنے بچوں کے مستقبل کے تحفظ کے لئے اسلام آباد کے پروفیشنل صحافیوں کو جاگو گروپ کا انتخاب ہی کرنا ہو گا باقی جو موٹر مکینک، جو پراپرٹی ڈیلر، جو سرکاری ملازم اور جو دو نمبر پریس کلب کے ممبر بن چکے ہیں وہ بھلے انہیں ووٹ دیں جنہوں نے انہیں ممبر بنایا۔

جاگو گروپ کامیاب ہوا تو میڈیا ہاوسز کے باہر گھنٹے دو گھنٹے کے مظاہرے نہیں ہوں گے بلکہ جبری برطرفیوں کے خاتمہ کے لئے متعلقہ حکمت سازوں سے بات چیت ہو گی۔ اسلام آباد کے صحافیوں کو اپنے ضمیر کے مطابق سچائی کا ساتھ دینا ہو گا اور فیصلہ کرنا ہو گا ان کی نمائندگی کا حق پروفیشنل صحافیوں کو ہے یا پراپرٹی ڈیلروں کو۔

(نوٹ: ادارہ ہم سب پریس کلب کے انتخابات میں کسی خاص گروپ کی حمایت یا مخالفت نہیں کرتا ہے۔ دیگر پینلز کے حامیوں کی تحریریں بھی (موصول ہونے کی صورت میں) اسی انداز میں شائع کی جائیں گی جس انداز میں جاگو پینل کے لئے جناب اظہر سید کی تحریر شائع کی گئی ہے۔ مدیر)۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).