وہ اپنی بچی کو مارنا نہیں چاہتی تھی


سولہویں ہفتے کے آخر میں جب اس کا الٹراساؤنڈ ہوا تو ہمیں پتہ لگ گیا تھا کہ وہ لڑکی ہے۔ میری پیاری بیٹی۔ میں نے فوراً ہی کہہ دیا تھا کہ بانو نام ہوگا اس کا، مجھے پرانے نام پسند تھے۔ میری ایک خالہ جنہوں نے بچپن میں مجھے بہت پیار کیا تھا ان کا نام بھی بانو تھا۔ وہ اپنے پہلے بچّے کی پیدائش کے دوران نہ جانے کیسے موت کا شکار ہوگئی تھیں۔ ان کا پیار بھرا، مہربان چہرہ میرے ذہن کی کسی تہہ میں محفوظ تھا۔ سیما نے کہا تھا کہ نہیں یہ کنول ہوگی، ہماری کنول۔ بانو توبہت پرانا نام ہے۔ ہم دونوں ہنس دیے تھے۔ اچھا تو تم اسے کنول کہنا، میں اسے بانو پکاروں گا۔ گھر میں وہ کنول ہوگی اسکول میں بانو۔ آخر دو دو نام بھی تو ہوتے ہیں۔ ہم دونوں پھر ہنس دیے اور پھر روز ہی ہنستے رہے تھے۔

ہمارے گھر میں ہر وقت ہی آنے والے مہمان کی باتیں ہوتی رہتی تھیں۔ اس کے پنک کپڑے بن رہے تھے، اس کے کمرے میں کھلونے جمع ہورہے تھے۔ پروفیسر صاحبہ نے یہ بھی حساب لگالیا کہ اسے کب کس نرسری میں جانا ہوگا، کس اسکول میں پڑھنا ہے، مجھ سے اور اس سے پوچھے بغیر سیما نے اسے ڈاکٹر بنانے کا فیصلہ بھی کرلیا تھا۔

”ہماری کنول ڈاکٹر بنے گی۔ “ اس نے مجھے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”ارے بھائی ڈاکٹر کیوں، وکیل کیوں نہیں؟ کمپیوٹر انجینئر بننے میں کیا بُرائی ہے۔ “ میں نے مذاق میں اس سے اختلاف کیا۔

”نہیں میں نے کہہ دیا بس وہ ڈاکٹر بنے گی، صرف ڈاکٹر اور اچھی گائناکولوجسٹ، جو مریضوں کے ہر سوال کا جواب دے، انہیں ٹالے گی نہیں، صرف پیسے نہیں کمائے گی بلکہ انسانیت بھی اس کے دل میں ہو۔ “ اس نے بڑی سنجیدگی سے کہا تھا۔

”وہ تو ٹھیک ہے لیکن بانو سے بھی پوچھا ہے تم نے آخر وہ کیا بننا چاہتی ہے، شاید وہ ڈاکٹر بننے سے منع کردے، شاید اسے خون وغیرہ اچھا ہی نہ لگے، ارے بابا، بانو سے پوچھ تو لو۔ “ میں نے اسے چھیڑا تھا۔

”پہلی بات تو یہ کہ بانو نہیں کنول اور دوسری بات یہ کہ بھلا اسے کیا اعتراض ہوگا ڈاکٹر بننے میں۔ پوچھ بھی لیں گے وہ منع تھوڑی کرے گی آخر میری بیٹی ہے کیوں نہیں مانے گی میری بات۔ “ اس نے اور زیادہ سنجیدگی سے کہا تھا۔

”کنول نہیں بانو۔ “ میں نے ہنس کر کہا تھا۔
”بانو نہیں کنول“
”کنول نہیں بانو“
”کنول، کنول، کنول“
”بانو، بانو، بانو۔ “ میں نے تکیہ اس کی طرف پھینکتے ہوئے ہنستے ہوئے زورسے کہا۔ وہ تکیہ سے بچنے کے لیے جھکی تھی اور ساتھ ہی چیخ مار کر اپنی جگہ پر جم کر رہ گئی تھی۔

”ارے کچھ ہوگیا ہے دیکھو بے تحاشا پانی جارہا ہے نیچے سے۔ “ میں فوراً ہی سمجھ گیا تھا کہ بچّی کے گرد لپٹی ہوئی ممبرین پھٹ گئی ہے اور اس کا مطلب ہے کہ لیبر شروع ہونے والا ہے۔ انٹرنیٹ پر بہت اچھی سی تصویر بنی ہوئی تھی اس پورے عمل کی۔ وہ سب کچھ میری آنکھوں کے سامنے یک بیک آگیا۔ اب فوراً ہی ہسپتال جانا ہوگا، ڈاکٹر نے بھی یہی کہا تھا۔ اب اڑتیس ہفتے ہوگئے ہیں۔ کسی بھی وقت درد شروع ہوسکتے ہیں جب کبھی بھی درد ہوں ہر دس منٹ کے بعد یا یکایک پانی چھوٹ جائے یا پھر خون آنے لگے تو فوراً ہی ہسپتال آنا ہوگا۔ دیر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ماں اور بچّے دونوں کی زندگی خطرے میں پڑسکتی ہے، میں نے جلدی سے امی کو بتایا اور اسی وقت فوراً ہی اسے گاڑی میں لے کرہسپتال پہنچ گیا تھا۔

باجی اور ان کی بیٹی بھی ہسپتال آگئے تھے اور چھ گھنٹے کے اندر ہی اندر ہماری کنول پیدا ہوگئی۔ کسی آپریشن اور کٹ کے بغیر بالکل نارمل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سات پونڈ کی ننھی سی گلاب کی کلی اسے اُٹھا کرمیں نے چوما، اس کے گالوں کو، ماتھوں کو، اپنے گالوں سے لگایا، اسے سینے سے لگا کر دل چاہا کہ اسے بھی دل میں سمالوں، میرے آنسو نکل آئے۔ سیما کی آنکھوں میں بھی جل ندی کی طرح چھلک رہا تھا۔

تین دن وہ ہسپتال میں رہی۔ خاندان کا ہر ہر فرد اسے دیکھنے آیا مٹھائیاں، کیک، پھول روزانہ مجھے ہسپتال سے گھر لانے پڑتے تھے۔ کس قدر خوش تھے سب لوگ، وہ ننھی سی گڑیا پورے خاندان کا مرکزی نقطہ بن کر رہ گئی تھی۔

گھر آکر بھی سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا، سیما خطرے سے باہر نکل چکی تھی۔ گھر میں ایک چھوٹی سی بچّی آگئی۔ میں دوبارہ اپنے روٹین کے کاموں میں لگ گیا۔ سیما کے حمل کی وجہ سے میں نے اپنے بہت سے دورے منسوخ کردیے تھے۔ سب لوگوں کو اس ڈلیوری کا انتظار تھا۔ مجھے فوری طور پر سنگاپور جانا تھا جس کے لیے میں نے اپنی آمادگی کا اظہار کردیا تھا۔

میں گھر پہنچا تو سیما کمرے میں خاموش بیٹھی تھی۔ کنول اس کے گود میں تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب اُمنڈ رہا تھا۔ میری سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ میں کیا کہوں۔ یکایک یہ کیا ہوگیا ہے۔ میں فوراً ہی اس کے پاس بیٹھ گیا۔

”کیا ہوا سیما، خیر تو ہے؟ کنول تو اچھی ہے نا کیوں رورہی ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “

اس نے اپنا سر میرے کاندھوں سے ٹکادیا۔ ”نہیں کچھ نہیں ہوا ہے۔ بس رونا سا آگیا تھا یونہی بیٹھے بیٹھے۔ “ اس نے آنکھوں سے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے کہا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا مگر پھر بھی میں اس کے ساتھ بیٹھا رہا، بولتا رہا، ہنستا رہا اور اسے ہنسانے کی کوشش کرتا رہا۔

”مجھے پرسوں سنگاپور جانا ہے سیما اور اب کی دفعہ اکیلے جانا ہوگا۔ کچھ کام رُک گیا ہے وہاں پر۔ چلا جاؤں نا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جانا تو ہوگا۔ “
”ہاں ضرور جائیں امی تو ہیں یہاں پر۔ “ اس نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا۔
پانچ دن سنگاپور میں بہت مصروف گزرے۔ میں روزانہ تین تین چار چار دفعہ فون کرکے پوچھتا۔ سیما سے باتیں کرتا، کنول کا رونا سنتا۔ جیسے ہی کام ختم ہوا میں پہلی فلائٹ پکڑ کر واپس آگیا۔

مجھے سب کچھ ٹھیک ہی لگا۔ رات گئے تک ہم لوگ باتیں کرتے رہے پھر نیند آگئی تھی۔ پھر نہ جانے رات کے کس لمحے میں میری آنکھ کھل گئی، سیما بستر پر نہیں تھی۔ میں تھوڑی دیر تک انتظار کرتا رہا کہ شاید وہ باتھ روم میں ہو مگر جب کافی وقت نکل گیا تو میں نے اُٹھ کر دیکھا باتھ روم میں کوئی نہیں تھا۔ میں دروازہ کھول کر اپنے کمرے میں باہر نکلا تو دیکھا کہ سیما سیڑھیوں پر بیٹھی رورہی ہے۔
بڑی بڑی سیاہ آنکھوں سے جیسے موم پگھل پگھل کر بہہ رہا ہو۔ میں بے قرار ہوگیا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4