وزیر اعظم پاکستان کے انٹرویو کی روشنی میں


اس میں کوئی دو آرا نہیں کہ پاکستان اس وقت معاشی و اقتصادی لحظ سے تاریخ کے ایک انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ یہ ایک ایسا دور ہے جو پاکستان کو مجبور کررہا ہے کہ اگر اس کا جلد حل تلاش نہ کیا گیا تو آنے والے ماہ و سال کوئی بھی صورت حال اختیار کر سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنے چاروں جانب گردن گھما گھما کر دیکھ رہا ہے کہ اس مشکل وقت میں کون اس کی مدد کے لئے آگے بڑھتا ہے۔

پاکستان کے اب ایسے حالات بھی نہیں کہ اس کے دنیا کے دیگر ممالک سے مراسم بالکل ہی منقطع ہو کر رہ گئے ہوں اور کوئی بھی ایسا ملک نہ ہو جو پاکستان کی مدد کرنے کے لئے تیار نہ ہو۔ اصل مسئلہ یہ ہے گزشتہ کئی دھائیوں سے پاکستان دوسرے ممالک سے قرض لینے یا امداد لینے کا اس حد تک عادی ہو چکا ہے کہ اس کی اپنی خود کی کارکردگی بالکل ہی مفقود ہوتی چلی جا رہی ہے۔ دیگر ممالک سے امداد کا سلسلہ تو آج بھی جاری ہے لیکن بنیادی سوال یہ آن پڑا ہے کہ گزشتہ کئی دھائیوں سے قرضہ لینے کا جو سلسلہ چل نکلا ہے اسے اداکرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جارہا ہے اور اب عالم یہ ہو گیا ہے کہ قرضوں کی ادائیگی کے لئے بھی قرضے لینے کی نوبت پڑرہی ہے۔ یہ صورت حال ایک جانب تو پاکستان کے لئے جگ ہنسائی کا سبب بنی ہوئی ہے اور دوسری جانب پاکستان کے عوام کے لئے بھی سوہان روح بنی ہوئی ہے کہ اگر قرضے لے کر بھی قرضے ہی اتارنے ہیں تو پھر باقی کوئی بھی ترقیاتی کام کیسے سرانجام پا سکے گا۔

وزیر اعضم پاکستان کا کہنا ہے کہ ”ملک کی مخدوش ترین معاشی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے چین کی مدد ’تازہ ہوا کا جھونکا‘ ثابت ہوئی ہے“۔ جناب وزیر اعظم نے یہ بات ترک نیوز چینل ”ٹی آر ٹی“ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔ بات وہیں امداد پر ہی آکر رکی یعنی پاکستان کی صورت حال یہ ہے کہ اس وقت کہیں سے بھی کوئی ایسی خبر آجائے جس میں امداد، پیکج یا قرض کی کوئی اطلاع ہو تو پاکستان کے حکمرانوں کے چہروں پر اطمینان کی ایک تازہ لہر دوڑجاتی ہے۔

ایک جانب امداد کی اس خبر پر چہرے پر دوڑتی ہوئی اطمینان کی اس لہر کو صاف دیکھا جاسکتا ہے تو دوسری جانب بے خبری کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کی حکومت کے سب سے بڑے عہدے پر متمکن فرد کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ چین میں موجود مسلمان کس حال میں زندگی گزار رہے ہیں۔ چین کی ریاست اپنے ملک میں چند لاکھ مسلمانوں کو انسان سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں ہے اور وہ برس ہا برس سے ظلم و جور کی چکی میں پیسے جارہے ہیں۔ چین جو اب پاکستان کے اندر داخل ہی ہو چکا ہے اور امداد کے بہانے انگلی پکڑتے پکڑتے اب پہنچا پکڑنے کے قریب ہو گیا ہے، جب وہ اپنے اندر بسنے والے مسلمانوں کو ہی انسان ماننے کے لئے تیار نہیں تو مستقبل میں وہ ہمارے ساتھ کیا کر سکتا ہے اگر اس بات کی سنگینی کا اب ادراک نہ کیا گیا تو پھر آنے والے وقتوں میں چین کی دست برد سے اپنے آپ کو بچا کر رکھنا دشوار ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا۔

اسی انٹرویو میں چین میں مبینہ ریاستی جبر کا شکار اویغور مسلمانوں کے بارے میں ایک سوال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ انھیں چین میں اویغور مسلمانوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کے بارے میں تفصیل سے علم نہیں ہے لیکن وہ یہ ضرور کہیں گے کہ چین نے پاکستان کا مشکل وقت میں بھرپور ساتھ دیا ہے۔ وزیر اعظم نے جو جواب بھی دیا ہے وہ بہت نا مناسب سا لگتا ہے۔ ایک جانب تو ملک کے وزیر اعظم ہونے کے ناطے چین کے مسلمانوں کی جانب سے ان کی لاعلمی خود ایک حیرت والی بات ہے اور دوسری جانب یہ کہنا کہ کہ کچھ بھی ہو اس وقت اہمیت امداد کی ہے ناکہ اس بات کی کہ وہ اپنے مسلمانوں کے ساتھ کس قسم کا رویہ رکھے ہوئے ہے۔

اگر یہ فلسفہ درست ہے تو پھر اب تک آنے والے سارے حکمران اور خاص طور سے پرویز مشرف کے دور میں جس طرح امریکہ کے ہاتھوں ماؤں بہنوں اور ملک کے مفادات کی خرید و فروخت ہوتی رہی وہ کیونکر غلط قرار دی جاسکتی ہے اور ایک پرائی جنگ کو اپنی جنگ قرار دینا کیوں درست نہیں؟ اس جنگ کے عوض پاکستان کی بھرپور مدد کی جاتی رہی تھی جس کا سلسلہ چند ماہ تک جاری رہا تھا اور پاکستان میں جو کچھ بھی ترقی نظر آرہی ہے یہ اسی خرید و فروخت کا ہی حصہ ہے۔ جب پیسہ ہی مطمع نظر ہو جائے اور حکمرانوں کو امداد دینے والے ملکوں میں اپنے مسلمان بھائیوں پر کسی بھی ظلم و ستم کی پرواہ تک نہ ہو تو پھر ان سے مسلم امہ کے خیر کی کوئی توقع رکھنا فضول ہی ہے۔

کرپشن کے متعلق کیے گئے سوال کے جواب میں وزیراعظم پاکستان کا وہی پرانا سا جواب تھا کہ وہ ملک اور اس کے ادارے تباہ ہوجاتے ہیں جس میں بدعنوانی کا راج ہو۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اب ادارے آزاد ہیں اور کرپشن کے خلاف موثر کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ان کی یہ بات کہ کرپشن ملک و قوم کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہے لیکن یہ بات کہ کرپشن کے خلاف بھرپور کارروائی ہو رہی ہے اور ریاستی ادارے ہر کرپٹ فرد کے گرد اپنا دائرہ تنگ کر رہے ہیں، اتنا درست نہیں۔

اس کا سب سے بڑا ثبوت بڑے بڑے افراد کے ساتھ ڈھیل اور ڈیل کی صورت میں صاف صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ بہت ساری مقتدر ہستیوں کے اکاؤنٹ کی بحالی، ان کے ای سی ایل سے ناموں کا اخراج اور ان کی گرفتاریوں میں تاخیر اس بات کے ثبوت کے لئے کافی ہے۔ جب حکومتیں مصلحتوں کا شکار ہوجایا کرتی ہیں تو بد عنوانیوں کو فروغ حاصل ہوتا چلا جاتا ہے جس کا مظاہرہ اب شدت کے ساتھ نظر آنے لگا ہے۔

انڈیا کے بارے میں سوال پر عمران خان نے کہا کہ پاکستان پڑوسی ملک بھارت سے مذاکرات چاہتا ہے لیکن وہ اس پیشکش کو کئی بار مسترد کر چکا ہے جس کی وجہ بھارت میں 2019 میں ہونے والے انتخابات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بھارت کو پیشکش کی کہ آپ ایک قدم بڑھیں، ہم دو قدم بڑھائیں گے لیکن موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی الیکشن مہم چلانے کے لیے پاکستان مخالف جذبے کو ابھار رہے ہیں کیونکہ بھارت میں اس نعرے کو ووٹ ملتا ہے۔

اگر اس بات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے تو یہ بات دوطرفہ ہے۔ جس طرح بھارت کے لئے پاکستان سے امن مذاکرات کی بات چیت کرنا یا پاک بھارت دوستی کو فروغ دینا ایک مشکل امر ہے اسی طرح پاکستان کے لئے بھی یہ کوئی آسان عمل نہیں اس کے لئے یہ بات بہت ضروری ہے کہ پہلے کشمیر کے مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔ جب تک کشمیر میں پائیدار امن قائم نہیں کیا جاتا، وہاں کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو بند نہیں کیا جاتا اس وقت تک بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانا ممکن نہیں۔ دوطرفہ مذاکرات کے لئے ضروری ہے کہ کشمیر کے معاملے کو جلد از جلد نمٹالیا جائے۔

عمران خان نے دوران انٹر ویو بڑی سچی بات کہی کہ ”ایٹمی صلاحیت کے حامل دو ممالک جنگ تو دور، سرد جنگ کے بھی متحمل نہیں ہو سکتے اوردونوں ملکوں کا مسائل کو جنگ سے حل کرنا خودکشی ہو گی چناچہ ان کی دونوں کی توجہ مذاکرات پر ہونی چاہیے“۔ جس طرح ہندوستان نے سرحدوں کے حالات کو کشیدہ کیا ہوا ہے اور آئے دن سرحد کے اس پار سے سرحدی خلافورزیاں جاری ہیں وہ پاکستان اور ہندوستان کو تیزی سے جنگ کی جانب دکھیلنے کا سبب بنتی جا رہی ہیں۔

وزیراعظم نے بہت درست کہا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں ایٹمی ملک ہیں اور ان کے درمیان اگر جنگ چھڑگئی تو اس کے نتائج دونوں میں سے کسی کے حق میں بھی اچھے نہیں ہو سکتے لہٰذا ضروری ہے کہ دونوں ممالک اپنے مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے ڈھونڈیں اور فضا کی کشیدگی کو جس حد تک بھی ہو سکے کم سے کم کریں تاکہ جنگ کے امکانات ختم کیے جا سکیں۔

امریکہ کے بارے میں کیے جانے والے سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ جب آپ دوسروں کی جانب سے دی گئی مالی مدد پر انحصار کرتے ہیں تو آپ کو اسی کی قیمت چکانی پڑتی ہے اور پاکستان نے اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ 80 کی دہائی میں افغان جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان اُس وقت بھی اس جنگ کا حصہ بنا جس کی وجہ سے ملک میں بد امنی پھیلی اور جنگ کے بعد ملک میں شدت پسند عناصر اور منشیات کا فروغ ہوا۔

مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے بارے میں کیے جانے والے سوال پر عمران خان نے کہا کہ آسیہ بی بی کا معاملہ بہت افسوسناک تھا کیونکہ جب ان کے مقدمے پر سپریم کورٹ نے فیصلہ دے دیا تو صرف ایک گروپ کو اس پر اختلاف تھا۔

یہ بات عمران خان کی اتنی درست نہیں۔ آسیہ کا مسئلہ صرف اس کی ذات نہیں بلکہ یہ اسلام کے ایک بہت بڑے عقیدے پر حملہ ہے جس پر ساری امت مسلمہ متفق ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس پر آواز اٹھانے کے جرم میں پاکستان کے ایک فرقے کا ہی گلاگھونٹا گیا ہے لیکن یہ خیال کرلینا کہ اس پر پاکستان میں صرف ایک گروہ ہی کو اعتراض تھا درست نہیں۔ اگر یہ واقعی ایماندارانہ فیصلہ تھا تو عمران خان کو معلوم ہونا چاہیے کہ آسیہ ہی کی حمایت میں سلمان تاثیر کو ختم کیا گیا۔ اب اگر ملک میں خاموشی پائی جاتی ہے تو ان کو یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ ممتاز قادری کی طرح کچھ خبر نہیں کہ کب کس کی غیرت ممتاز قادری کی طرح جاگ جائے اس لئے ضروری ہے کہ وہ جب بھی اس نازک مسئلے پر لب کشائی کیا کریں پوری احتیاط کے ساتھ کیا کریں۔

امید ہے کہ دنیا کے جس فورم پر بھی آسیہ کا مسئلہ زیر بحث آئے وہ اس کی پوری حقانیت کو سامنے رکھ کر جواب دیا کریں گے اس لئے کہ یہ بات فرد کی نہیں امت مسلمہ کے عزت و وقار کی بات ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).