محبت کا متلاشی


فارس نے ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ وہ جنت نظیر وادی میں پیدا ہوا تھا۔ اسی لیے اسے اس کی قدرت کے حسین کرشماتی کرشموں میں دلچسپی بھی بے حد تھی۔ حسین بشر ہو یا کوئی جگہ دونوں کا دیوانہ تھا۔ اس نے بہتے آبشار، کھلتے کھیلیان، جھومتے درخت، ہرے بھرے بھرے دیس میں جنم لیا تھا۔ اسی لیے اس کی آنکھیں بھی حسن کے زرے سمیٹتی رہتی تھی۔

اسے چراگاہوں میں گھومنا پسند تھا۔ پیدائش سرد ترین علاقے میں ہوئی جسے وادی کونش کہا جاتا ہے۔ مگر زندگی ساری گرم ترین شہر کراچی میں گزاری۔ اس کے باوجود اس کا محبوب ترین موسم سردی تھا۔ اس سے کوئی اس کے پسندیدہ ترین مہینے پوچھ لے تو وہ کہتا کہ میرے لیے تو مہینے ہی اکتوبر نومبر دسمبر ہی ہے۔ بھلا اس کے علاوہ بھی کوئی مہینے ہوتے ہیں۔ باقی مہینے سردی کی جدائی میں غمگین گزرتے ہیں تب ہی تو وہ گرم ہوتے ہیں۔

موسم تو بس سردی کا ہوتا ہے۔ باقی تو بس سردیوں کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ تاکہ کچھ مہینے کی لوڈ شیڈنگ ہوجائے پھر سردی واپس لائی جا سکے۔ اب بھلا سردی کا اتنا تو کوٹا ہے ہی نہیں کہ پورا سال بلا کم و کاست یا بلا لوڈ شیڈنگ کے اس کی فراہمی دی جائے۔ اسی لیے چند ماہ کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے تاکہ پھر بھرپور انرجی کے ساتھ سردی فراہم کی جائے۔

بچپن سے اسے روکا ٹوکا زیادہ گیا۔ ڈرایا زیادہ گیا۔ محبت کم دی گئی۔ اسی لیے وہ محبت کے معاملے میں ہمیشہ تشنہ ہی رہا۔ اس کی ماں کا مزاج سخت تھا۔ اس نے ماں کی محبت جو پڑھی سنی تھی۔ اس کا وہ ہمیشہ ہی سے متلاشی ہی رہا۔ مگر مل پھر بھی نہ سکی۔ اس نے ماں کو ہمیشہ ڈانٹتے، کوستے ہی دیکھا۔ وہ ہمیشہ اپنی ماں کا موازنہ کرتا رہا کہ فلاں ماں کو دیکھو کیسے اپنے بچے سے پیار سے بات کرتی ہے۔ کیسے اپنے بچے کی تعریف کرتی ہے کہ تعریف کرتے زبان نہیں تھکتی۔ ایک ہماری ماں، ہم نیک صالح ہوکر بھی تعریف کا وہ درجہ نہ پا سکے جو پاپ کرکے دوسرے پا سکیں۔ فلاں کو دیکھو کیسے گھر سے ٹفن بھرا ہوا ملتا ہے۔ مگر اسے آج تک کبھی یہ ٹفن نہ ملا۔ ایک بار اس نے اماں سے کہا کہ مجھے آج ٹفن میں ناشتہ دے دیجیے میں وہی ناشتہ کروں گا۔ ماں نے آگے اسے اتنا ڈانٹا کہ وہ آنسوؤں سے بھری آنکھیں لیے اسکول چلا گیا۔

بچپن سے نوجوانی میں قدم رکھا۔ وہ محبت کی تلاش ہی میں رہا۔ اس کا جی چاہتا کہ کاش کوئی ہو جو اس کے دل کا حال سنے۔ اس کے افسردہ چہرے کو پڑھ سکے۔ کوئی ہوں جو اس کے دل میں رنجیدگی کے پھٹتے پھوٹتے آتش فشاں کو ٹھنڈا کر سکے۔ کوئی ہوں جو اسے تھپکی دے۔ کوئی ہو جو محبت کا پیالہ پلا کر سیراب کردے۔ اسے دوست ملا تو کچھ وقت تک اس نے اس کا خوب استعمال کیا۔ پھر وقت آنے پر ساتھ چھوڑ گیا۔ وہ بہت سے لوگوں کا ساتھ پاکر بھی خود کو تنہا ہی محسوس کرتا رہا۔ فارس حساس مزاج کا تھا۔ وہ ناقابل برداشت رویوں پر تکیے کو آنسوؤں سے بھیگو دیتا مگر کسی سے کچھ کہہ نہیں پاتا۔

اسے ایک لڑکی سے محبت ہوئی کچھ سال اس کی زلفوں اور قسموں کا اسیر رہا۔ پھر وہی ہوا جو ہوتا آیا کہ دو سال بعد وہ جو زندگی کی شامیں تو کیا بلکہ زندگی نام کرگئی تھی۔ اس نے برسوں کا تعلق توڑنے میں چند منٹ لگائے۔ وہ روتا سسکتا، رنجیدہ ہی رہ گیا۔ کچھ عرصے بعد اس نے کتابوں سے محبت کرلی۔ اب وہ اور کتابیں ہوتی ہیں۔ وہ اپنا زیادہ تر حصہ کتابوں کو پڑھنے میں گزار دیتا ہے۔

وہ چاہتا ہے کہ زندگی کے ایک نئے سفر کا آغاز کرے۔ مگر وہ یہ بات یہ راز کس سے کہے۔ اس کے راستے میں روایات اور معاشرے کی اتنی بڑی دیوار ہے کہ جسے وہ توڑ ہی نہیں سکتا۔ وہ یہ گلہ یہ شکوہ کس سے کرے۔ شاید وہ کسی مسیحا کا منتظر ہے کہ جو اس کی تشنگی ختم کر سکے۔ جو اسے وہ پیالہ پلائے جس سے وہ سیراب ہوجائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).