آزاد کشمیر کی قاتل سرکاری کاریں


ابھی دو ہفتے قبل مظفر آباد میں ایک افسر کے لاڈلے نے سرکاری گاڑی کی ٹکر سے بزرگ شہری کو زندگی کی قید سے آزاد کردیا تھا۔ آج ایک اور سرکاری گاڑی نے آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی کہ چہلہ کیمپس کے احاطے میں ایک جواں سال طالبہ کو کچل کر مار ڈالا۔ مقتولہ عفیفہ بی بی ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں تیسرے سمسٹر کی طالبہ تھی۔ کینسر کی مریضہ تھی مگر اپنے مرض کا انتہائی جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کر رہی تھی اور مسلسل آگے بڑھ رہی تھی۔ مگر آج معاشرے کے ناسور کا مقابلہ نہ کر سکی۔

گزشتہ واقعے پر بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اس واقعے کو بھی لے دے کر دبا دیا جائے گا۔ بدقسمت والدجوان بچی کو منوں مٹی تلے دبا کر اسے قسمت کا لکھاسمجھ کر اور اللہ کی رضا تسلیم کے کے چپ ہو جائے گا۔ ماں زلزلے میں فوت ہو چکی ہے۔ باپ محکمہ برقیات کا معمولی ملازم ہے۔ بڑے افسروں کے آدم خور مافیا کا مقابلہ کیسے کرے گا۔ آخر کار انہی کی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کرلے گا۔

جو صاحبان اختیار خود چار چار سرکاری گاڑیاں غیر قانونی طور پر استعمال کر رہے ہوں وہ کسی کے خلاف کیا کارروائی کریں گے۔ جو پولیس والے تحقیقات پر معمور ہوں گے ان میں سے بیشتر پر اختیارت سے تجاوز، رشوت خوری اور ممکنہ طور پر منشیات کی خرید و فروخت میں ملوث ہونے کے الزامات ہو سکتے ہیں۔ جن منصفوں کی عدالت میں مقدمہ جائے گا ان کے گھر میں بھی ایک عدد سرکاری گاڑی غیر قانونی استعمال ہو رہی ہو گی۔ ہم جیسے کچھ دل جلے دو تین دن سوشل میڈیا پر دل جلائیں گے اور پھر اللہ اللہ خیر صلا۔

کوئی نہیں پوچھے گا کہ محکمہ سروسز کی سرکاری گاڑی یونیورسٹی میں کس مقصد کے لیے گئی تھی؟ بھلا پوچھے بھی کیوں؟ کئی افسران کے لاڈلے سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں انہیں سرکاری گاڑیوں میں ہی تو آتے جاتے ہیں۔ کون پوچھے گا کہ یونیورسٹی احاطے کے اندر اس رفتار سے گاڑیاں چلانے کی اجازت کس نے دی؟ بھلا کوئی پوچھے گا بھی کیوں؟ یونیورسٹی کے بیچوں بیچ قومی ہائی وے ہے جس پر یونیورسٹی کی اپنی گاڑیاں بھی تو اسی رفتار سے دوڑتی ہیں۔

آزاد کشمیر کے لوگوں کی بدقسمتی اور یہاں کے سرکاری افسران کی خوش قسمتی ہے کہ بجٹ کا ایک بڑا حصہ گاڑیوں کی خرید، مرمت اور ایندھن پر خرچ ہوتا ہے اور اوپر سے نیچے تک سبھی ان گاڑیوں کے جائزو ناجائز استعمال پر متفق ہیں۔ ہر وزیر کے گھر چار چھ گاڑیاں کھڑی ہیں۔ ہر سیکرٹری دوران سروس نصف درجن گاڑیاں استعمال کرتا ہے۔ لاڈے سکول آتے جاتے ہیں۔ بیگم شاپنگ کرتی ہے۔ بڑی لاڈلی ڈرائیونگ سیکھتی ہے۔ عزیز رشتہ داری سیر و تفریح کے لیے لے جاتے ہیں۔ مہینے میں ایک ادھ بار راولپنڈی سے گھریلو سامان لانا ہو تو بار برداری کا کام بھی سرکاری گاڑی ہی کرتی ہے۔ بڑے افسروں کی ریٹائرمنٹ کے وقت زیادہ نہیں تو ایک ادھ گاڑی ساتھ لے جانے کا رواج عام ہے۔

راولپنڈی، اسلام آباد میں ہر تیسری سرکاری گاڑی پر آزادکشمیر حکومت کی سبز نمبر پلیٹ ہوتی ہے۔ درجن بھر گاڑیاں کراچی، لاہور اور اسلام آباد سے چوری بھی ہوئیں، کئی مبینہ طور پر ملی بھگت سے فروخت بھی ہوتی رہیں مگر سرکاری گاڑیوں کے غیر سرکاری استعمال میں کمی ہوئی نہ روک تھام کے اقدامات ہوئے۔ کئی مرتبہ ٹرانسپورٹ پالیسی تشکیل دی گئی۔ مگر نفاذ اور عملدرآمد کے لئے جب کسی افسر نے کوشش کی تو اسے ایک آدھ نئی گاڑی دے کر منہ بند کر دیا۔ کسی صحافی نے آواز اٹھائی تو اس کو سیر سپاٹے کے لیے سرکاری گاڑی ایندھن کے ساتھ دے دی۔ ایک ایک وزیر، ایک ایک سیکرٹری اور ایک ایک سربراہ محکمہ کا ماہانہ پٹرول اور گاڑی کی مرمت کا بجٹ دیکھا جائے تو گماں ہوتا ہے کہ ان کے استعمال میں گاڑیاں نہیں ہیلی کاپٹر ہیں۔

چونکہ ارباب بست و کشاد اور ان کے عزیز و اقارب کو استعمال کے لیے سرکاری گاڑیاں میسر ہیں لہذا کسی صاحب اختیار کی توجہ پبلک ٹرانسپورٹ کی جانب نہیں جاتی۔ پبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوں کی خستہ حالی کے باعث ہر سال سینکڑوں افراد ٹریفک حادثات میں مرتے ہیں۔ جو حادثات سے بچ جائیں کسی سرکاری گاڑی کی ٹکرسے مارے جاتے ہیں۔ آزادکشمیر میں ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کا تناسب پاکستان کے دیگر علاقوں سے بہت زیادہ ہے۔

حضرت علیؓ سے منسوب ایک مشہور قول ہے کہ کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے، مگر ظلم کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ جس معاشرے کا ہردوسرا شخص اس کی تباہی پر متفق ہو، جس معاشرے میں سدھرنے کے امکانات و آثار دور دور تک نظر نہ آ رہے ہوں، جس میں لاقانونیت، بے انصافی اور ظلم عروج پر ہو اس معاشرے کا قائم رہنا کسی معجزے سے کم نہیں اور ہم آج کل انہیں معجزات کے زمانے میں جی رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).