صرف بالغوں کے لئے تحریر کی گئی “سچی کہانی”


 

دور قدیم کی بات ہے، فتح محمد نام کا ایک گورکن مکلی کے قبرستان میں رہتا تھا۔ تب سمّا حکمرانوں کی سندھ میں سلطنت قائم تھی۔ آس پڑوس کے حکمرانوں کے دل سمّا حکمرانوں کے جلال سے کانپتے تھے۔ قبرستان میں بڑے بڑے مقابر تعمیر ہوتے اور فتح محمد (جسے سب برفی کہتے تھے) ان میں مزدوری کیا کرتا۔ مگر عام طور پر تو وہ غریب غرباء کی ہی قبریں تعمیر کیا کرتا۔

برفی کا مکان قبرستان میں ہی تھا۔ اس کی جھونپڑی میں اس کی بیوی اور دو درجن بچے بھی رہتے تھے۔ برفی اپنی حالت سے تنگ تھا۔ اسے اپنے وجود سے کافور کی مہک آتی۔ اکثر اسے لگتا کہ وہ بھی ایک لاش ہے۔ اس کے گھر کے پاس قریب کوئی گھر نہ تھا۔ آس پاس بس قبریں ہی قبریں تھیں۔ تھوڑی دور بڑے بڑے شاندار مقبرے تھے۔اس کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر ایک پرانا کنواں تھا، وہ کنواں زمانوں قبل سوکھ چکا تھا۔ ایک روز فتح برفی اس کنویں کے پاس بیٹھا تھا کہ اسے اشرفیوں کی چھنکار سنائی دی۔

اس نے حیرت سے ادھر ادھر دیکھا، پھر اپنے کانوں کا خلل سمجھ کر اس بات کو نظر انداز کر دیا۔ مگر جھنکار پھر سنائی دی۔ اس نے پھر حیرت سے ادھر ادھر دیکھا۔ آواز کنویں سے آ رہی تھی۔ اس نے اٹھ کر کنویں میں جھانکا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی، اندر ہوا میں معلق ایک دیگ تھی۔اس دیگ کا ڈھکن کھلا تھا اور اندر چھنک چھنک کی آواز کے ساتھ اشرفیاں ہوا میں کسی فوارے کی طرح اچھل رہی تھیں اور واپس اسی دیگ میں گر رہی تھیں، برفی مبہوت ہو گیا اور غش کھا کر کنویں کی دیوار پکڑ کر ساتھ زمین پر گر پڑا۔ تھوڑی دیر بعد ہوش آیا تو سامنے ایک مکروہ صورت کی خوفناک عورت بیٹھی تھی۔

’’ڈر مت، ڈر مت۔۔ میں اس خزانے کی رکھوالی پہ ہوں، یہ خزانہ راجہ پورس کے زمانے سے اس کنویں میں پڑا ہے، تو چاہے تو تیرا ہو سکتا ہے۔‘‘

’’تم کون ہو۔۔ کیا تم انسان ہو؟‘‘

’’ سچ کہوں تو میں چڑیل ہوں جو صدیوں سے اسے خرابے میں رہتی ہے۔ مگر تجھے خزانے سے مطلب ہونا چاہئے‘‘

’’مجھے یہ خزانہ کیسے مل سکتا ہے؟‘‘

’’بہت آسانی سے۔۔ صرف یہ خزانہ نہیں سارے ملک کے خزانے بھی میں تجھے لا دوں گی۔‘‘

’’مجھے کیا کرنا ہو گا؟‘‘

’’تجھے بس میرے ساتھ ہمبستری کرنی ہو گی‘‘

’’کیا!‘‘ برفی کی چیخ نکل گئی۔

میں اتنا بھی آوارہ نہیں۔

’’ارے اب تو بھی کون سا حسین جوان ہے؟ بڈھا گنجا ہی تو ہے۔ اونٹ جیسی تیری صورت ہے اور دو درجن تیرے بچے ہیں۔

میرے علاوہ تجھے کیا مل سکتا ہے اور سوچ تو سہی کہ” خزانہ “بھی تو مل رہا ہے۔ اچھا چل شادی ہی کر لے۔

برفی سوچ میں پڑ گیا، پھر گویا ہوا۔

مگر میں انسان ہوں اور تم ” چڑیل”۔

مطلب؟

’’ارے تو فکر نہ کر، میں جب ڈھنگ کے کپڑے پہنتی ہوں تو تقریباً انسان ہی معلوم ہوتی ہوں اور تو خزانے کے بارے میں سوچ۔

پھر یہ بھی سوچ کہ میں تو تجھے اس شہر کا حاکم بھی بنوا سکتی ہوں‘‘

برفی للچایا، پھر بولا۔

’’دیکھ بی بی میں تیار ہوں مگر گاؤں والوں کو یہ نہیں بتا سکتا کہ تو چڑیل ہے، تو مجھے تیرا کوئی انسانوں والا نام رکھنا ہو گا۔

چل آج سے تیرا نام زینی ہے۔۔ تجھے منظور ہے؟‘‘

(بعض روایتوں کے مطابق ستم ظریف برفی نے اُس کا نام حسینہ رکھا)

’’ہاں ٹھیک ہے‘‘ چڑیل فوراً راضی ہوگئی۔

پھر برفی چڑیل کو لے کر قبرستان کی جامع مسجد میں لے گیا۔ وہاں مولوی صاحب سے نکاح پڑھانے کی درخواست کی اور ایک اشرفی ان کے ہاتھ پر رکھ دی۔

(یہ اشرفی اسے چڑیل نے دی تھی)

مولوی صاحب نے مدرسے سے لڑکے بلوائے۔ دو کو گواہ بنایا اور برفی کا نکاح پڑھا دیا۔ برفی اپنی نئی بیوی کو لے کر اپنے گھر آ گیا۔

اس کی پرانی بیوی نے جب ماجرا جانا تو ماتم کرنے لگی مگر اب کیا کرتی بیچاری۔ اس نے صبر کر لیا، کچھ دن بعد زینی نے برفی کو اشرفی بھری دیگ لا کر دے دی۔

برفی راتوں رات امیر کبیر ہو گیا۔ اسے اپنی چڑیل بیوی اپنی تمام تر بدصورتیوں کے باوجود بھی اس دولت کی وجہ سے قابل برداشت لگنے لگی۔ برفی نے ٹھٹھہ میں ایک محل تعمیر کروایا اور چڑیل کے ساتھ وہاں منتقل ہو گیا اور اپنی بڑی بیوی اور سارے بچوں کو بھول گیا۔ اب اہل شہر اس پر رشک اور حیرت کرتے۔ برفی کے اپنے بچے اگر کبھی اس سے ملنے آتے تو وہ ان کو دھکے دے کر اپنے محل سے نکلوا دیتا۔ چڑیل نے اسے اشرفیوں کی ایک اور دیگ لا دی تھی۔ برفی اب کنیزیں اور غلام خریدتا، رقاصائیں بلواتا اور عیاشی کرتا۔ چڑیل کو کنیزوں یا رقص کرنے والوں سے رقابت محسوس ہوتی مگر وہ بھی برداشت کر لیتی۔

ایک روز برفی ایک عالی شان گھوڑے پر سوار ہو کر شہر میں نکلا، اس کے ساتھ غلام بھی تلوار بے نیام کر کے چلتے تھے۔ سامنے سے ایک اور رئیس کی سواری برآمد ہوئی، رئیس بگھی میں سوار تھا، ہٹو بچو کی صدا بلند ہوئی اور بازار میں لوگوں نے سڑک خالی کر دی اور مؤدب ہو کر کھڑے ہو گئے مگر برفی سواری کو خاطر میں نہ لایا اور اپنی ناک اونچی کر کے سواری کے برابر سے گزر گیا۔

یہ سواری سمّا شاہی خاندان کے ایک فرد کی تھی۔

شاہی انا کے لئے یہ گستاخی ناقابل برداشت تھی، حکم صادر ہوا کہ کل ہی اس شخص کو رئیس کے محل میں حاضر ہونے کا حکم دیا جائے۔ برفی کو پیغام ملا مگر برفی اس پیغام کو بھی خاطر میں نہ لایا۔ چند دن بعد برفی جب اپنے گھر سے باہر جا رہا تھا تو چڑیل پریشان صورت بنائے آئی اور گویا ہوئی۔

’’سرتاج آپ کو معلوم ہے کہ کیا ہوا ہے؟‘‘

’’نہیں ۔ تم بتاؤ؟‘‘

’’سرتاج محل میں بغاوت ہو گئی ہے ، امیر خان سمّا نے اپنے چچا یعنی سلطان کو ہلاک کر دیا ہے، شہزادوں کو گرفتار کر کے زندان میں ڈال دیا ہے۔‘‘

’’تو ہمیں کیا فرق پڑتا ہے حسینہ ؟‘‘

’’امیر خان وہی ہے جس نے چند دن قبل آپ کو اپنے محل بلوایا تھا۔‘‘

برفی کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔

’’ارے وہ بھول گئے ہوں گے۔۔ وہ تو چھوٹی بات تھی۔‘‘

اگلے روز کئی لوگ شہر میں گرفتار کر کے نئے سلطان کے سامنے پیش کئے گئے۔ یہ سب وہ تھے جو پچھلے سلطان کے وفادار تھے مگر ان کے درمیان برفی بھی پا بہ جولاں کھڑا تھا۔

بادشاہ نے سب کو دیکھا اور جلاد کو اشارہ کیا، سب کو باہر لایا گیا اور باری باری گردنیں کاٹی جانے لگیں۔ برفی کی ٹانگیں تھر تھر کانپ رہی تھیں کہ اس کے سامنے اچانک اُس کی بدہیت بیوی نمودار ہوئی۔

’’ارے زینی، میری حسینہ

تم۔۔ تم مجھے بچا لو!‘‘

’’سرتاج میں چڑیل ہوں، میری قوت اتنی نہیں کہ سلطان سے ٹکرا سکوں۔‘‘

’’کچھ تو کرو!

آخر میں تمہارا شوہر ہوں!‘‘

’’میں کر کیا سکتی ہوں؟

میں نے بے حساب مردوں کے ساتھ عیاشی کی ، 70 شادیاں کیں لیکن ہر مرتبہ شمشان گھاٹ پر مردے جلانے والے اور گورکن ہی میری قسمت میں آئے۔ ہر مرتبہ میں نے ان بدبختوں کو لاکھوں اشرفیاں لا کر دیں مگر ان میں سے کوئی بھی مجھ سے شادی کرنے کے بعد طبعی موت نہیں مرا، اور کوئی بھی دو سال سے زیادہ زندہ نہیں رہا۔

دولت، طاقت، اقتدار، اختیار۔ تم گورکنوں اور مرگھٹ پر مردے جلانے والوں کو بھی ہضم نہیں ہوتا اور میں ہر مرتبہ بیوہ ہو جاتی ہوں‘‘۔ اتنے میں جلاد برفی تک پہنچا اور چڑیل غائب ہو گئی۔

برفی کی لاش کو مکلی کے ہی قبرستان میں اسی پرانے کنویں میں پھینک دی گئی اور چڑیل اپنے خزانے کے ساتھ دوبارہ کنویں پر کسی گورکن کا انتظار کرنے لگی۔

(صرف سال اور زمانے تبدیل ہوئے ہیں۔ یہ سب کردار آج بھی ویسے ہی ہیں ۔ یقین نہیں آتا تو ایک بار سندھ کی کسی سرکاری جامعہ کا دورہ کر لیں۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).