وہ کال گرل تھی مگر انسان بھی تو تھی


میں اس کوٹھی سی نکلا تو دل بری طرح سے سلگ رہا تھا۔ سینے میں جیسے کسی نے انگارے رکھ دئیے ہوں۔ بات ہی کچھ ایسی تھی میں جو انیلا کو اپنی زندگی کا حاصل سمجھتا تھا وہی میری آرزوؤں کی قاتل تھی۔ اُس نے مجھے ایک مہرے کی طرح استعمال کیا تھا۔ مجھ سے محبت کے ناٹک کا اصل مقصد شہروز کو جلانا تھا تا کہ وہ اس کی طرف لوٹ آئے اور جیسے ہی اس کا مقصد پورا ہوا اس نے مجھے اپنی زندگی سے ایسے نکالا جیسےدودھ سے مکھی نکالتے ہیں۔

توہین کا شدید احساس میری رگوں میں لاوا بن کر بہتا تھا اور میں انتقام کی آگ میں جلتا تھا۔ مجھے دنیا کی ہر لڑکی سے نفرت ہو چکی تھی۔ پارسائی اور پاکبازی جیسے الفاظ بے معنی سے لگنے لگے تھے۔ ایسے میں اپنے ایک دوست مانی کا خیال آیا جس کو کبھی میں برا سمجھتا تھا مگر آج مجھے اس کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے گھر جا کر ڈائری سے اس کا نمبر تلاش کر کے اسے فون کیا۔

وہ اتفاق سے شہر میں ہی تھا۔ “میں تم سے آج اور ابھی ملنا چاہتا ہوں۔” میں نے اپنا نام بتا کر صرف یہ ایک جملہ کہا۔ “آ جاؤ۔” اس نے بلا توقف جواب دیا۔ پینتالیس منٹ بعد میں اس کے سامنے بیٹھا تھا۔ اس نے مشروب سے بھر کر دو گلاس میز پر رکھے اور سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا۔ “تم نے اتنے عرصے بعد مجھ سے رابطہ کیا ہے یقیناً کوئی خاص بات ہوگی۔ بتاؤ میں تمہارے لئے کیا کر سکتا ہوں؟۔

“مجھے ایک پستول چاہئیے میں اس کو مار دوں گا یا خود کو۔” میں نے غم و غصے سے کہا۔ ایک منٹ۔ پہلے مجھے پوری بات بتاؤ، ہوا کیا ہے۔ مانی فوراً سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ میں نے سارا قصہ سنایا۔ مانی نے اطمینان سے کہا۔” تمہیں پستول کی نہیں سجل کی ضرورت ہے۔” کیا مطلب؟ یہ سجل کون ہے؟ میں نے چونک کر کہا۔

ایک کال گرل ہے، بلا کی خوبصورت ہے تم اس کا حسن دیکھ کر سب کچھ بھول جاؤ گے اور پھر انیلا نے تمہارے ساتھ جو کیا ہے اس کے بعد بھی یہ پارسائی کا ڈھونگ رچائے رکھو گے کیا۔ اگر اس نے شہروز سے تعلق جوڑا ہے تو تم بھی خود کو برباد کر کے دیکھ لو۔

میں نے اسے گھور کر دیکھا تو فوراً بولا یہ میں نہیں کہتا فراز نے کہا تھا۔ سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے: سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں۔

میں اس وقت عجیب کیفیت کا شکار تھا۔ مجھے ایسا لگا کہ یہ بھی انتقام کی ایک شکل ہے میں نے مانی کہا کہ سجل کو بلا دو۔ “ایسے تھوڑی آئے گی۔ دس ہزار لے گی کہو تو اسے فون کر دوں۔” مانی بولا۔ میں سے سر ہلا دیا۔

رات نو بجے ڈور بیل بجی میں اپنے مکان میں اکیلا اور بے حد اداس بیٹھا تھا۔ دروازہ کھولا تو خوشبو کے جھونکے کے ساتھ ایک خوبرو اور نازک اندام حسینہ اندر آئی۔ اس کی مخمور آنکھوں اور تراشیدہ بالوں میں بلا کی کشش تھی۔ میں نے پہلی بار کسی کو ایسے بلایا تھا کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا بات کروں۔ ٹی وی پر کوئی نیوز چینل چل رہا تھا۔ چند لمحوں تک میں بظاہر ہیڈ لائینز سنتا رہا۔

” کھانا کھاؤ گی؟ ” میں نے پوچھا۔ ” ییس پلیز” اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ فریج میں کھانے پینے کی کئی چیزیں تھیں لیکن میں نے سوچا باہر جانا چاہئیے شاید دل بہل جائے۔ چنانچہ کار کی چابی اٹھائی اور بولا۔ آؤ پھر کہیں باہر سے کھاتے ہیں۔ اسے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ پندرہ بیس منٹ بعد ہم شہر کے ایک اچھے ریسٹورانٹ میں بیٹھے تھے۔ بڑا خوبصورت ماحول تھا۔ ویٹر آیا تو میں نے سجل سے پوچھا۔ ” کیا کھاؤ گی؟”

” کچھ بھی منگا لو۔ کوئی خاص بھوک نہیں ہے۔ ” او کے۔ میں نے اپنی پسند سے رائس اور چکن وغیرہ آرڈر کیا۔ پھر اسے دیکھنے لگا۔ اس کا سپاٹ چہرہ ہر قسم کے تاثرات سے عاری تھا۔ اس کے جذبات تک پہنچنا کافی مشکل تھا۔ مجھے اچانک اس میں دلچسپی محسوس ہوئی۔ وہ کیا سوچ رہی ہے۔ اس وقت دماغ میں کیا چل رہا ہے اس کے۔ ویٹر کھانا لے کر آیا تو میں کھانے کی طرف متوجہ ہوا۔

وہ بڑی نفاست سے تھوڑا تھوڑا کھا رہی تھی۔ میری نگاہیں اسے ہر زاویے سے جانچ رہی تھیں۔ ” کیا دیکھ رہے ہو؟ اس نے دھیرے سے سوال کیا۔ ” یہی کہ قدرت نے بڑی فیاضی سے تمہیں حسن عطا کیا ہے۔” میں نے سادگی سے کہا۔ وہ ہنس پڑی۔ مجھے ایسی باتیں زیادہ سمجھ نہیں آتیں لیکن اپنی تعریف تو سب کو اچھی لگتی ہے۔ وہ بولی۔

گفتگو کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ ہم نہ جانے کتنی دیر وہاں بیٹھے رہے۔ سجل کو سردی لگ رہی تھی۔ ہم وہاں سے نکل آئے۔ گھر پہنچ کر میں نے کپڑے تبدیل کئے سجل نے بھی مہین سی نائٹی پہن لی۔ وہ مسکراتے ہوئے میری طرف بڑھی۔ ” تمہارے لئے کافی بناؤں یا کچھ اور پینا چاہو گے؟” اس نے پوچھا۔ “فریج میں سوفٹ ڈرنک بھی ہے اور ہارڈ ڈرنک بھی، اگر تم پینا چاہو تونکال لو؛ رہی میری بات تومیری طلب صرف تم ہو۔” میں نے جواب دیا۔ وہ ہنستے ہوئے میرے بازوؤں میں سما گئی۔

مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں انیلا سے بدلہ لے رہا ہوں۔ جیسے اس طرح سے اس کو تکلیف پہنچے گی اور میرے سلگتے ہوئے دل کو قرار ملے گا لیکن ایک نرم اور گرم وجود کو محسوس کرتے ہی ایک اور احساس ہوا۔ اس کا جسم ضرورت سے زیادہ گرم تھا۔ میں نے فوراً اس کی جلتی ہوئی پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ ” تمہیں تو بہت تیز بخار ہے۔” میں نے چونک کر کہا۔

“نہیں نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں۔ ” وہ فوراً بولی۔ جھوٹ مت بولو۔ تمہارا بدن تو جیسے آگ میں تپ رہا ہے۔ میں نے اس کے چہرے، گردن اور پیشانی کو چھو کر کہا۔ ” اوہو میں نے کہا ناں! میں ٹھیک ہوں۔ ” اس کے انداز میں سپردگی تھی۔

“یہاں بیڈ پر لیٹ جاؤ۔” دل میں اٹھنے والا طوفان اچانک تھم گیا تھا۔ میں نے اسے بخار کی دوا دی۔ اس نے چپ چاپ دو گولیاں نگلیں اور میرا ہاتھ اپنے دھک دھک کرتے دل پر رکھ کر بولی۔” مجھے پیسوں کی سخت ضرورت ہے۔”

نہ جانے کیوں دل میں درد کی لہر سی اٹھی۔ ہر کسی کی ضرورت کی نوعیت مختلف ہوتی ہے لیکن سب کی ضرورت پوری نہیں ہوتی۔ مجھے انیلا کی ضرورت تھی مگر اسے کسی اور کی۔ اب سجل کی ضرورت پیسہ تھی اور میری ضرورت نہ جانے اب کیا تھی۔ وہ ایک کال گرل تو تھی مگر انسان بھی تو تھی میں نے والٹ کھولا اور پانچ ہزار والے دو نوٹ اس کی ہتھیلی پر رکھ دئیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).