ڈنگ ٹپاﺅ پالیسی کب تک؟


فرد ہو یا قوم زندگی کی خوبصورتی و رعنائی یہ ہے کہ وہ اپنے آج کے لیے جیے اس سے جو اعتماد آتا ہے وہ ترقی یا سربلندی کا زینہ بنتا ہے لیکن اگر کوئی انسان یہ سمجھے کہ میرا آج تو بہت خراب ہے جو گزرے ہوئے برے کل سے جڑا ہوا ہے لیکن میں آنے والے کل کو اچھا بنانا چاہتا ہوں اگرچہ سوچ یہ بھی برُی نہیں ہے مگر نتائج کے لحاظ سے اس کی آو ¿ٹ پٹ مثبت کی بجائے ہمیشہ منفی رہے گی یعنی حاصل حصول کچھ نہیں صرف یہ دکھائی دے گا کہ میں تو گزرے کل کی کوتاہیوں کو درست کر رہا ہوں اچھے دن تو ابھی آنے ہیں بس اُن کے لیے محنت یا پلاننگ کر رہا ہوں ۔یوں وہ پوری زندگی انہی سہانے خوابوں میں گزار کر منزل مقصود حاصل کیے بغیر مر جائے گا ۔اس کی جو کیفیت آغاز کار میں تھی وہی اختتام کار پر بھی رہے گی۔

افراد کی طرح ترقی پذیر اور ترقی یافتہ اقوام کی بھی کچھ ایسی ہی کیفیات ملاحظہ کی جا سکتی ہیں ۔۔ترقی پذیر اقوام اپنے آنے والے کل کے لیے جیتی ہیں جبکہ ترقی یافتہ اقوام نہ صرف اپنے حاضر و موجود آج کے لیے جیتی ہیں بلکہ نئے صبح و شام پیدا کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ اقوام اور ان کے افراد دنیا کو نئی سے نئی ایجادات ہی نہیں دیتے ہیں بلکہ ہر شعبہ حیات میں نئی کونپلیں اگاتے اور علم و ہنر کی نت نئی خوشیاں بانٹتے ہیں ہمارا ملک پاکستان لاریب ایک ترقی پذیر ملک یا قوم ہے بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ بارہایوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید ہم ترقی پذیر کی بجائے تنزل پذیر قوم ہیں جس کا آج اس کے گزرے کل سے بہتر نہیں بلکہ بارہا بد تر محسوس ہونے لگتا ہے کبھی چار قدم آگے بڑھتے محسوس ہوتے ہیں تو اچانک خلائی یا ماورائی ریورس گئیر لگ جاتا ہے اور ایک ہی جھٹکے میں پانچ قدم پیچھے جا گرتے ہیں پھر کپڑے جھاڑ کر اٹھتے ہیں اور بلند بانگ دعووں کے ساتھ نعرے ہانکتے ہیں کہ ماضی میں تو سب غلط تھا اب ہم نیا پاکستان بنانے آگئے ہیں لیکن سال نہیں گزرتا کہ تجزیہ کار رونے لگتے ہیں کہ نیا کیا خاک بننا تھا یہ تو پرانے کی بھی بربادی ہو رہی ہے۔

اصلیت جو بھی ہے اس امر میں تو کوئی شک نہیں کہ قیام پاکستان سے لے کر آج کے دن تک ہم کبھی بھی اپنے آج کے لیے نہیں جئیے ہیں ہمیشہ سہانے کل Tomorrowکے لیے سپنے دیکھتے ہیں یا دکھاتے ہیں 70سالہ تاریخ کا جائزہ لے لیں وہ کل ہمیں کبھی میسر نہیں آسکا ہے اور درویش کو سرنگ کے پار کسی نوع کی کوئی روشنی کم از کم اگلی ایک صدی تک بھی نہیں دکھتی ہے۔ بنے گا بگڑے گا مگر یہ ملک ایسے ہی رہے گا تاوقتیکہ نئی جغرافیائی تبدیلیاں وقوع پذیر نہ ہوجائیں ۔اسی تصو یر کا دوسرا رخ بھی ہے وہ یہ کہ مجھ سمیت کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ منفی منظر نامے کی یوں تصویر کشی کرے تلخ زمینی حقائق یا سچائیاں جو بھی ہیں مگر یہ دنیا امید کے سہارے پر قائم ہے مثبت پہلو یہ ہے کہ جیسے تیسے پتلے حالات میں ہم نے آگے بڑھنے کے لیے سفر کا آغاز کیا تھا سوئی سے بسمہ اللہ پڑھتے ہم سوئی گیس نکالنے تک پہنچے ہمارا مجموعی انفراسٹرکچر اتنا برُا نہیں ہے کہ جس پر ٹسوے بہانا شروع کر دیں ہم پاکستانیوں نے اندرون ملک ہی نہیں بیرو ن ملک جا کر بھی اتنی محنت کی ہے اتنا زیادہ زرمبادلہ کمایا ہے کہ جس سے اندرونِ ملک ہمارے گھروں میں خوشحالی آئی ہے کچے مکانوں سے پکے مکانوں میں منتقل ہوئے ہیں مجموعی طور پر ہمارا معیارِ زندگی بڑھا ہے قومی سطح پر ہم ایک علاقائی طاقت ہی نہیں پوری دنیائے اسلام میں واحد نیوکلئیر حیثیت کی حامل قوم ہیں ۔ہمارا ملک پاکستان جغرافیائی طور پر ایسے خطے میں واقع ہے جو بڑی طاقتوں اور اقوام عالم کے لیے سنگم کی حیثیت رکھتا ہے چار موسموں سے مزین اس مملکت میں جہاں بلند و بانگ قدرتی حسن سے مالا مال پہاڑی چوٹیاں ہیں وہیں سونا اگلنے والے کھیتوں کے میدانی خطوں کا وسیع پھیلاو ¿ بھی اپنے دامن میں ہے مثالی زراعت اور شادابی کے ساتھ معدنیات کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ پھر رونا کس بات کا ہے ؟ آخر ہم کیوں کشکول اٹھائی میں جگ ہنسائی کا باعث بنے کھڑے ہیں ؟۔ دنیامیں ہماری پہچان منگتوں والی کیوں ہے ؟کوئی ہمارے ملک میں آئے تو ہم پوچھتے ہیں کہ وہ ہمیں کیا دے کر گیا ہے ؟ہم کہیں کسی ملک میں جائیں تو پوچھتے ہیں کہ ہم وہاں سے کیا لے کر آرہے ہیں ؟ہمیں کتنی امداد یا گرانٹ ملی ہے اور کن شرائط پر کتنا قرضہ ہم اپنے کندھوں پر اٹھا لائے ہیں ؟ان سب سوالات کے جوابات تو درویش کو آتے ہیں تفصیل میں پوری کتاب لکھ سکتا ہے مگر کیا کریں مشکل ہے عرض حال…. سب سے بڑا رونا اس بات کا ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنے اصل دکھ درد یا بیماری کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں ۔اصل بیماری یہ ہے کہ ہم لوگ مجموعہ تضادات یا بھان متی کا کنبہ ہیں کوئی قومی سوچ ڈویلپ کر سکے ہیں نہ کوئی ٹھوس نظریہ حیات یا سسٹم تشکیل کر پائے ہیں ہماری کوئی جاندار قومی اقدار ہیں نہ کوئی ترجیحات ہیں نہ ان کے لیے کوئی خاص معیارات عسکری لحاظ سے ہم جتنی بھی مضبوطی پر ہیں اخلاقی و انسانی حوالوں سے اتنی ہی پستی میں گرے ہیں ۔۔کیا ہم نے بحیثیت قوم کبھی غور کیا ہے کہ دفاعی یا عسکری حوالوں سے بڑی بڑی مضبوط سلطنتیں،اخلاقی ،سیاسی اور معاشی کوتاہیوں کے کارن قعر مذلت میں جا گری ہیں ایسی بربادیاں ہوئی ہیں کہ پھر کبھی اٹھ نہیں سکی ہیں ۔ان کے لاو ¿ لشکر یا آتشین اسلحے کسی کام نہیں آئے ہیں عصرِ حاضر میں سوویت یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے جبکہ اسی دنیا میں جاپان جیسی مملکت بھی ہے جو قریبی ہمسائیگی میں دشمن داری کے باوجود بغیر اسلحہ و فوج کے اتنی سر بلند ہے کہ پوری ترقی پذیر دنیا عظیم جاپانی قوم کے معیارِ زندگی تک پہنچنے کے لیے کوشاں ہے اور اس کی ترقی کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتی ہے۔

مغربی اقوام نے جب تک اپنے لیے اعلیٰ اخلاقی ،سیاسی یا انسانی معیارات نہیں اپنائے ان کے تمامتر وسائل بدترین عالمی جنگوں کا ایندھن بنتے رہے بالآخر انہی اقوام کو Hague Conventionsکے بعد جنیوا سے نیویارک تک لیگ آف نیشن سے UNتک امن و سلامتی اور پر امن بقائے باہمی کے اصول و ضوابط اپنانے پڑے جو لوگ انہیں یہ طعنے دیتے تھے کہ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی یہ طنزیہ تیر پلٹ کر الزام تراشیاں کرنے والوں کی طرف لوٹے اور” ماشاءاللہ“ آج ان کی اپنی اقوام خود کش حملوں کی عالمی پہچان بنی کھڑی دکھائی دیتی ہیں اور جس آگ میں یہ دوسروں کو جلانا چاہتے تھے اسی آگ میں خود جل رہے ہیں اور یونہی جلتے رہیں گے تاوقتیکہ ہوش کے ناخن نہ لیں ،یہ آگ اس وقت تک نہیں بجھے گی جب تک ہم لوگ کائنات کے ابدی حقائق اور سچائیوں کے سامنے سرنگوں نہیں ہو جائیں گے ۔وہ ابدی سچائیاں یہ ہیں کہ اگر آپ دنیا میں عزت و احترام کے ساتھ جینا چاہتے ہوتو دوسروں کو عزت و احترام دو۔اگر آپ پر امن قومی زندگی گزارنا چاہتے ہو تو دوسروں کی طرف امن کے پھول بھیجو اگر آپ ہمسائیوں کی طرف بارود پھینکو گے تو جوابی طور پر آپ کی طرف پھول نہیں بارود ہی آئے گا ۔

 اپنی پھیلائی گندگی کو آپ خود صا ف کرو چہ جائیکہ کوئی دوسرا صفائی کرنے آئے ایسی صورت میں وہ صفائی کے ساتھ ٹھکائی بھی کرے گا،خود ستائی کی بجائے خود احتسابی کی سوچ اپناؤ، ڈنگ ٹپاﺅ پالیسی کو ختم کرو۔ مذہب کا سیاسی استعمال آپ نے بہت کر لیا اب اس کا چورن مزید بیچنے سے باز آجاؤ۔ اپنی 70سالوں پر محیط کوتاہیوں پر تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے اپنا چہرہ ماضی پرستی سے مستقبل کی طرف پھیرو۔ پہلے آپ کو ہندو برے لگے تھے تو آپ نے پارٹیشن کروالی اب شیعہ سنی اور وہابی دیوبندی کے جذبات بھڑکا کر کونسی قومی یکجہتی پیدا کرنا چاہتے ہو عسکری برتری اور عوامی کمتری کی سوچ سے کیا نکالنا چاہتے ہو ۔مذہبی جنونیت نے پہلے آپ کا کونسا بھلا کیا جو آئندہ بھڑوں کے چھتوں سے شہد کی امید لگائے بیٹھے ہو۔ پارٹیشن کے بعد آپ نے یکے بعد دیگرے اپنی جمہوری حکومتوں کا کھلواڑ کیا اتنا زیادہ کہ پنڈت نہرو کو یہ کہنا پڑا میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی آپ حکومتیں بدلتے ہیں ۔ اسی سیاسی عدم استحکام نے آپ کو عسکری دلدل میں ایسے پھینکا کہ نکلنے اور گرنے کی مشق میں مستقل مبتلا ہو کر رہ گئے ہو ۔گذشتہ سات دہائیوں سے یہاں جمہوریت اور آمریت کی آنکھ مچولی جاری ہے ۔آمریت کبھی ننگی ہو کر سامنے آئے گی کبھی کٹھ پتلیوں کے لبادوں میں یوں تجربات سے گزرنے اور دھکے کھانے کے بعد اگر کسی سیاستدان کی عزت نفس یا خودی بیدار ہوئی تو اس کا مقام کوئے دار ہو گا یا جیل خانہ۔

وطن عزیز میں مذہبی منجن یا لمبی کرپشن ہر دو ایسی کالی سیاہیاں ہیں کہ جس کو رسوا کرنا مقصود ہوا اُس کے چہرے پر یہ کالک مل دی ورنہ یہ جو پارسائی کے ٹھیکے دار بنے بیٹھے ہیں ان کے گھناؤنے کرتوت اگر کھولے جائیں تو عوام کے لیے ان کا تعفن سہنا مشکل ہو جائے گا ۔اگر یہ اتنے ہی سچے ہیں تو پھر احتسابی کلہاڑا محض سیاستدانوں کے خلاف ہی استعمال کیوں کیا جارہا ہے؟ کیا فرزندِ اقبال کا نام نامی اسم گرامی استعمال کرنے والے اس کا جواب دے سکتے ہیں؟ یہاں کچھ کٹھ پتلیاں ہیں تو کچھ ڈرامے باز ،کچھ تماش بین اور کچھ سستی شہرت کے بھوکے، کسی میں اپنی ذات سے آگے دیکھنے کی صلاحیت ہے نہ ہمت اور نہ یارا…. جو لمبی زبان نکال کر دوسروں پر گند اچھالتے ہیں اُن کی اپنی پاک دامنی سے کیا کچھ برآمد نہیں ہو رہا۔کیا وطنِ عزیز میں کوئی ایسی قیادت ہے جو بے لگاموں کو لگام دے سکے ۔ قیادت آسمانوں سے نہیں ٹپکتی فکری طور پر زرخیز زمینوں سے ہی نمودار ہوتی ہیں لیکن اگر قیادت کی نرسریوں پر طاقت کا زہر پھینک دیا جائے تو پھر ڈنگ ٹپاﺅ پالیسی ہی چلے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).