تیزابی ٹوٹے اور انقلابی سیاسی تجزیے


وطن عزیز کے معروف کالم نگار اور مدیر اعلی ’ہم سب‘ محترم وجاہت مسعود صاحب کا کالم ’صبح کے خوش نصیب اور کٹا ہوا ڈبہ‘ پڑھا۔ کالم پڑھ کر محترم وجاہت مسعود صاحب کی طبیعت کی خرابی کا علم ہوا، جس سے یقیناً تشویش لاحق ہوئی ہے۔ دعا ہے کہ محترم وجاہت مسعود جلد از جلد صحت یاب ہوں۔ محترم وجاہت مسعود نے کالم میں ایک ایسے نو جوان سے وطن عزیز کی سیاسی گفتگو کا ذکر کیا ہے، جس سے ان کی ملاقات ڈاکٹر صاحب کے مطب میں ہوئی۔ گفتگو کا خلاصہ یہ کہ نو جوان نے بحث سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ’میں پرانی باتیں نہیں جانتا۔ مجھے تو 2008 کے بعد کی تاریخ معلوم ہے‘ ۔

حقیقت تو یہی ہے کہ آج کل کے اکثر نو جوانوں کو وطن عزیز کی تاریخ کا علم ہی نہیں ہے۔ اور ہو بھی کیوں کر چوں کہ یہ نسل الیکٹرونک و سوشل میڈیا پر تیزابی ٹوٹے دیکھ کر جوان ہوئی ہے۔ وہ تیزابی ٹوٹے جس میں الیکٹرونک میڈیا منتخب وزرائے اعظم، دینی و سیاسی رہنماؤں کا مذاق دن رات اڑاتا ہے۔ ان تیزابی ٹوٹوں میں کبھی ان کرداروں کو بے نقاب کرنے کی کوشش نہیں کی گئی، جن کی وجہ سے وطن عزیز کی موجودہ خراب سیاسی و معاشی صورت حال ہے۔

تیزابی ٹوٹے تو ایک عرصے سے جاری و ساری ہیں۔ لیکن گزشتہ دنوں وطن عزیز کے سب بڑے نجی ٹی وی چینل کے معروف اینکر نے دو معروف صحافیوں، کالم نگاروں اور سیاسی تجزیہ نگاروں کے تجزیوں کو پروگرام کے آخر میں چہرے پر شدید مسکراہٹ طاری کرتے ہوئے، تیزابی اور انقلابی تجزیہ قرار دیا۔ جو تجزیہ نگار سابق جمہوری حکومتوں اور ان کے رہنماؤں پر تنقید کر رہے تھے، ان کا تجزیہ تیزابی تجزیہ قرار پایا اور جو تجزیہ نگار موجودہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے، ان کا تجزیہ انقلابی قرار پایا۔ یوں اینکر پرسن صاحب ناظرین کو مضحکہ خیز صورت حال میں مبتلا کر کے چلتے بنے۔

اسی وجہ سے عوام، خصوصاً نوجوان نسل وطن عزیز کی خراب صورت حال کا ذمے دار سیاست دانوں کو سمجھتے ہیں۔ چونکہ ان کو کبھی نہ الیکٹرونک میڈیا پر بتایا گیا اور نہ نصاب میں پڑھایا گیا کہ وطن عزیز میں دستور ساز اسمبلی کیوں 1956 تک آئین نہ بنا سکی؟ اس نو سالہ دور میں کتنے وزیر اعظم تبدیل ہوئے؟ سیاست دانوں کے ہاتھ سے اقتدار نکل کر کب نوکر شاہی اور فوج کو منتقل ہوا؟ پہلی دفعہ دستور ساز اسمبلی کب اور کیوں توڑی گئی؟ وطن عزیز میں پہلا مارشل لاء کب اور کیوں لگا؟ جنرل ایوب خان کب حاضر سروس وزیر دفاع مقرر ہوئے اور انہوں نے کب اقتدار پر قبضہ کیا؟ جنرل ایوب کے اقتدار پر قبضے سے ملک کو کیا نقصان پہنچا؟

سقوط ڈھاکہ کا ذمے دار کون ہے؟ بھارت کے ساتھ جنگوں کے اصل نتائج کیا رہے؟ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں وطن عزیز کی داخلی صورت حال کیوں کر خراب ہوئی؟ اور جو اب تک سنبھل نہ پائی ہے۔ سانحہ اوجڑی کیمپ کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ جنرل ضیاء الحق اور ان کے فضائی حادثے میں ہلاکت کا ذمے دار کون ہے؟ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضہ کرنے سے وطن عزیز کی داخلی، سیاسی و معاشی صورت حال بہتر ہوئی یا خراب؟

ہر مارشل لاء کے بعد جب بھی جمہوریت بحال ہوئی تو سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کو کس سیاسی قیمت اور سمجھوتے کے بعد حکومت نصیب ہوئی؟ ہر جمہوری حکومت کو کن قوتوں سے خطرات لاحق ہوتے ہیں؟ جیوڈیشنل مارشل لاء کیا ہوتا ہے اور اس کا آغاز کب ہوا؟ عدالت عظمی کی وطن عزیز کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال میں کیا کردار ہے؟

جب سے ٹی وی چینلز کی بھرمار ہوئی ہے۔ ہر ٹاک شو میں حکومت وقت اور سیاست دانوں کو بدعنوان قرار دیا جاتا ہے۔ اور وطن عزیز کی خراب اقتصادی اور معاشی صورت حال کا ذمے دار سیاست دانوں کو قرار دے دے کر عوام کے دل میں اپنے ناپسندیدہ سیاست دانوں کے خلاف نفرت کی فضا پیدا کی جاتی ہے۔ سیاست دان بھی ٹی وی پروگرامز میں بیٹھ کر اور پریس کانفرنسز میں ایک دوسرے کے خلاف اکثر بنا ثبوت الزامات لگاتے ہیں اور نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں۔

کاش! کہ جن سیاسی تجزیہ نگاروں کے تجزیے کو انقلابی اور تیزابی تجزیہ قرار دیا گیا۔ ان کو الیکٹرونک میڈیا پر اتنی آزادی ملے کہ وہ عوام کو بتائیں کہ چار طویل مارشل لاء سے وطن عزیز کو فائدہ پہنچا یا نقصان۔ وطن عزیز کی اقتصادی اور معاشی خراب صورت حال کی وجہ کیا صرف سیاست دانوں کی بد عنوانیاں ہیں؟ یا اور بھی کچھ وجوہ ہیں؟ قائد ملت لیاقت علی خان اور پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن بے نظیر بھٹو کے قتل کی کیا وجوہ ہیں مسئلہ کشمیر درحقیقت ہے کیا اور اس کے حل کا قابل عمل طریقہ کار کیا ہے؟ وطن عزیز کے عدالتی و احتسابی نظام کس کے اشارے پر چلتا ہے؟

سارے انقلابی اور تیزابی تجزیے سیاست دانوں کے لیے اور زبان کا چٹخارہ لینے کے لیے ہیں۔ کوئی بھی سیاسی تجزیہ نگار عوام الناس کو وطن عزیز میں چار دفعہ مارشل لاء لگنے کے سیاسی و سماجی، اقتصادی و معاشی، لسانی و مذہبی اثرات کے بارے میں سچ بتانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہر ٹاک شو میں حکومت وقت اور سیاست دانوں کو بد عنوان قرار دیا جاتا ہے۔ اور وطن عزیز کی خراب اقتصادی اور معاشی صورت حال کا ذمے دار سیاست دانوں کو قرار دے دے کر عوام کے دل میں اپنے نا پسندیدہ سیاست دانوں کے خلاف نفرت کی فضا پیدا کی جاتی ہے۔ جس کا اظہار عوام سوشل میڈیا اور نجی سیاسی مباحث میں کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).