پاکستانی مدارس دہشتگرد نہیں ہیں


میں ملکوال میں پیدا ہوا اور وہاں جب چھوٹے ہوتے ہوئے گلیوں میں کھیلا کرتے تھے تو وہاں اک عام فہم بات یہ تھی کہ مغرب کی اذان سے پہلے پہلے گھر واپسی لازم ہے اور اگر نہ آئے تو ”پٹھان آئیں گے، تمھیں اٹھا کر لے جائیں گے اور پھر خرکار کیمپوں میں پتھر تڑوائیں گے۔ “ جاتی ہوئی جوانی میں کچھ شعور آیا تو معلوم ہوا کہ ہماری درسگاہیں بھی خرکاری کے کیمپوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں جہاں مطالعہ پاکستان اور اسلامیات لازمی کے مضامینی پتھر پورے سولہ برس کوٹنے پڑتے ہیں۔ نتیجہ پھر بھی بالآخر تحریک انصاف کے ٹائگرز اور ٹائگریسز کی صورت میں نکلتا ہے۔ ماشاءاللہ!

اسی دمدمے میں اپنے پشتون بھائیوں سے کہتا چلوں کہ پنجابی دال خور اور بے غیرت بھی نہیں۔ بالکل ویسے ہی کہ جیسے آپ خرکار نہیں۔ اور اگر نسل پرستی کے تفاخر میں پنجابی دال خور اور بے غیرت ہی ہیں، تو جناب، خرکاری کا میڈل بھی آپ کا ہوا۔

اوپری مثال پاکستان کی گیارہ مرکزی قومیتوں میں سے دو کی باہمی تُرشی کے طور پر نہیں دی اور نہ ہی یہ مقصود ہے۔ یہ مثال پاکستان کے تمام صوبوں اور وفاقی علاقوں کے باہمی قومیتی تعلقات کے حوالے سے اک دوجے کے بارے میں غلط فہمیوں کے بارے میں ہے جس کا تذکرہ لطائف کی صورت میں عام مل جاتا ہے۔ صوبائی قومیتوں کو تو چھوڑئیے، اضلاع نے بھی اک دوسرے کے بارے میں لطائف گھڑے ہوتے ہیں۔

یہ ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے کہ ہم معاملات کو اپنی دماغی آسانی کے لیے جنرلائز کر لیتے ہیں، اور حقیقی جزیات میں جانے کی بجائے اک ہی ہلے میں کسی بھی معاملہ کو ہانکا دے ڈالنے میں گویا ہمیں کوئی ”جنتی سواد“ بہت شدت سے موصول ہوتا ہے۔ پاکستانی تاریخ کا بہت محدود سا مطالعہ ہے تو خیال آتا ہے کہ پاکستان میں تنقیدی شعور دینے اور رکھنے والی تقریبا تمام آوازوں کو جناب ایوب خان مرحوم کے دور میں چن چن کر دبا دیا گیا اور اس کارِخیر میں، بعد میں صوفی بالصفاء مشہور ہونے والے، محترمین قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر کا مرکزی ہاتھ تھا۔

تنقیدی شعور اگر انفرادی عادت نہ بنے تو یہ گروہی عادت نہیں بنتی۔ گروہی عادت نہ بنے تو یہ اک کمیونیٹی کی عادت نہیں بن پاتی۔ جب کمیونیٹیز اک دوسرے کے ساتھ تنقیدی شعور کے تعلق سے نہ جڑ پائیں تو یہ پھر اک معاشرتی اور بعد ازاں قومی عادت نہیں بن سکتی۔

ہمارے ہاں کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ اور جنرلائز کرنے کا یہی رویہ ہمیں پچھلے اٹھارہ برس کے دوران امنِ عامہ، دہشتگردی، انتہا پسندی، قتل و غارتگری اور حال میں شروع ہونے والی بیانیہ کی بحث اور موضوعات کے حوالے سے دینی مدراس کے اک خاص امیج کے ساتھ جڑا ہوا ملتا ہے۔

یہ رویہ اور اپروچ درست نہیں۔ نہ صرف درست نہیں بلکہ صریحا غلط ہے۔

پاکستان میں کوئی بھی قابل ذکر مدرسہ، بطور اک ادارہ، اک دہشتگرد ادارہ نہیں۔ ایک بھی نہیں، بھلے اس کا تعلق کسی بھی فرقہ سے ہو۔ ان مدارس میں پڑھانے والے اور پڑھنے والے اپنی اپنی انفرادی اکائی میں اگر آپس میں جڑ کر گمراہی کی جانب چلتے ہیں تو یہ پھر بھی انفرادی یا مختصر گروہی پس منظر میں دیکھنے والی بات ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ہمیں پبلک اور پرائیویٹ یونیورسٹیز میں بھی دیکھنے کو مسلسل ملتا ہے۔ دونوں صورتوں میں یہ حرکات و حرکیات ادارہ جاتی ملکیت میں نہیں ڈالی جا سکتیں۔ مگر مدارس پر الزام تراشی کی صورت میں یہ کام پچھلے تقریبا 17 برس سے مسلسل ہو رہا ہے۔

ادارہ جاتی سطح پر کسی بھی مدرسہ، یا کسی بھی وفاق کے تحت چلنے والے مدارس کو جنرلائزڈ طریقے سے دہشتگرد قرار دینا اک احمقانہ رویہ ہے، اور اس کی ابتدا سنہ 2002 میں پاکستان مدرسہ ریفارمز پرورگرام سے ہوئی جب جناب پرویز مشرف صاحب نے جناب معین الدین حیدر صاحب کے ماتحت چلنے والی وزارتِ داخلہ کی رپورٹس اور کچھ بیرونی دباؤ کی بنیاد پر مدارس کے معاملات کو تعلیمی، سماجی اور معاشرتی پسِ منظر میں دیکھنے کی بجائے انتظامی امور کی عینک سے دیکھنا شروع کیا۔ اس پراجیکٹ کا کیا حال ہوا، اس پر آنے والے دنوں میں بات ہو گی۔

ریاست مگر ہماری اتنی ذہین و فطین ہے کہ آج تک 2002 میں پہنی گئی عینک نہیں بدلی اور آئے روز، مدارس کو انتظامی امور کے حوالے سے ”قابو“ کرنے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ یہ کوششیں پہلے بھی ناکام ہوئی تھیں، اب بھی ناکام ہیں، اور آئندہ بھی ناکام رہیں گی۔ اور اس کی وجہ سمجھنے کے لیے کسی کا آئن سٹائن ہونا ضروری نہیں۔

سادہ ترین وجہ یہ ہے کہ ریاست، ریاستی ادارے اور ریاستی اہلکاران، مدارس اور ان کے اکابرین پر (عام فہم زبان میں ) ”اوپر سے آتے ہیں۔ “ اوپر سے آنے کی اک بنیادی شرط یہ ہے کہ آپ جس کے اوپر آ رہے ہوتے ہیں، اس کو اپنے سے نیچا دیکھتے ہیں۔

جیسے یہ کہنا بھی مکمل درست نہیں کہ مدارس میں انتہا پسندی اور دہشتگردی کے معاملات بالکل موجود نہیں، ویسے یہ کہنا بھی درست نہیں کہ صرف مدارس میں ہی انتہا پسندی اور دہشتگردی کے جرثومے پائے جاتے ہیں۔

یہ اک بڑا معاشرتی مسئلہ ہے، اور اس کے ڈانڈے صرف مدارس سے نکل کر معاشرے میں پیوست نہیں۔ یہ دوطرفہ عمل ہے، اور پاکستانی ریاست اور معاشرے کو مدارس کے حوالے سے ڈھلان پر جاری اس سفر کو روک کر، کچھ ٹھہر کر اور سوچ کر اک نئے زاویہ سے چلنا لازم ہے، وگرنہ دائروں کا یہ سفر جو پچھلی تقریبا دو دہائیوں سے جاری ہے، اگلی دو دہائیوں میں بھی جاری رہے گا۔

ہم سب کے پلیٹ فارم سے اس گفتگو کو مزید جاری رکھا جائے گا۔ آج کی گزارشات بنیادی طور پر مدارس کے بارے میں پائے جانی والے اک عام فہم معاشرتی رویے کو بیان کرنے اور اسی غلط العام سمجھ کے بیان کی بنیاد قارئین کے سامنے رکھنے کے حوالے سے تھیں۔
اسی موضوع پر آئندہ مزید گفتگو ہو گی، اور جلد ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).