پانی مر رہا ہے


ممتاز مصنفہ آمنہ مفتی صاحبہ کی کتاب ”پانی مر رہا ہے“ ملی تو سینئیر نقادوں کی طرح اس کا سرورق دیکھا، بیک فلیپ دیکھا، آمنہ مفتی کے کالم یاد کیے، ان کا لہجہ ذہن میں گونجا اور ہمیں یقین ہو گیا کہ اس کتاب میں ضرور قوم کے دیدوں کا پانی مرنے کا نوحہ پڑھا گیا ہو گا۔ واقعی قوم کی حالت بگڑی ہوئی ہے اور ایسی کتاب وقت کی ضرورت تھی۔ فروری میں ویلنٹائن ڈے بھی آنے والا ہے اس کا ذکر بھی کیا ہو گا اور قوم کو یوم حیا منانے کی تلقین کی ہو گی۔ بس یہی خیالات ذہن میں آئے۔

عموماً تو ہم یوسفی کے صبغے کی طرح کسی کتاب کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں۔ یعنی کہیں سے دو تین صفحے الٹ کر دیکھ لئے، بعض اوقات لکھائی چھپائی دیکھ کر ہی ساری کتاب کا مضمون بھانپ لیا، کتاب کا کاغذ اور روشنائی سونگھ کر کتاب پڑھنے یا چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ یا پھر کتاب کا سرورق پڑھتے پڑھتے اونگھ آ گئی اور اس عالم کشف میں جو دماغ میں آیا اسے مصنف سے منسوب کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس سے بیزار ہو گئے۔

خلاف معمول اس کتاب کو ہم نے زبان کے ریفریشر کورس کے لئے پڑھنے کا فیصلہ کر لیا۔ ایڈیٹنگ کرتے کرتے زبان کا ایسا بیڑہ غرق ہو جاتا ہے کہ ہر تین مہینے بعد ایسا ریفریشر کورس لازم ہے۔ عموماً ہم اس کے لئے اردو کلاسیکس پڑھنا پسند کرتے ہیں مگر آمنہ مفتی کی زبان بھی تو کلاسیک ہے۔ ایسے ایسے مردہ الفاظ کو زندہ کرتی ہیں کہ بندہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ ”ہیں اردو میں یہ سب کچھ بھِی ہوتا ہے؟ “ خاص طور پر ان کا اینیمل فارم کا ترجمہ کمال کا ہے۔

بہرحال رات گیارہ بجے کتاب پڑھنی شروع کی۔ ایک بجے لگا کہ کچھ دیر ہو گئی ہے، سو جانا چاہیے۔ ڈیڑھ بجے سوچا کہ بس ستر صفحے تو باقی بچے ہیں، مکمل کر ہی لی جائے۔ رت جگا کر کے ختم کر دی۔ یوں عرصے بعد کوئی کتاب ایک نشست میں ختم کی۔

ہم اس کے بارے میں ایک عام پڑھنے والے کا سا تبصرہ ہی کر سکتے ہیں۔ آپ نے ناول نگاری کی تکنیک، کتاب کے اسلوب، اس کا عصر حاضر اور زمانہ قدیم کے ادب سے تقابل، موجودہ ادب میں اس کا مقام، اس کے ہمیشہ زندہ رہنے یا ڈیڑھ دو مہینے میں ادبی موت کا شکار ہونے وغیرہ کے بارے میں دقیق علمی تجزیہ جاننا ہو تو جناب وجاہت مسعود یا آصف فرخی صاحب سے تبصرہ کرنے کی درخواست کریں۔ ایک شخص بتا رہا تھا کہ یہ کتاب بھی محمد حنیف کی کتاب ریڈ برڈز اور سید کاشف رضا کی طرح میجیکل رئیلز یا سرئیلزم یا سڑیلزم یا پتہ نہیں کس جدید تکنیک میں لکھی گئی ہے اور فی زمانہ کل عالم میں اسی کا رواج ہے۔ ہم اتنے پڑھے لکھے نہیں ہیں کہ جان سکیں کہ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا یا غلط۔

ہماری رائے میں جس طرح بندے کا اتنا زیادہ علم نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ڈاکٹری پڑھنے کے نتیجے میں کسی حسینہ کے ظاہری حسن کی بجائے اس کے دوران خون اور نظام ہضم یا زلف پر قربان ہونے کی بجائے اس کے سر میں خشکی کی طبی وجوہات پر غور شروع کر دے، اسی طرح پیشہ ورانہ مجبوری نہ ہو تو کسی کتاب کا لطف لینے کے لئے اسے نقاد کی بجائے عام آدمی کی طرح پڑھنا چاہیے۔

عام آدمی کی رائے ہے کہ کتاب کی زبان کمال ہے۔ مزے مزے کی دھرتی سے جڑی دیسی بولی۔ اس میں ایک نہایت لالچی زمیندار کے گھر اس کا بیٹا قانون کی اعلی تعلیم پا کر واپس آتا ہے تو سب یہ دیکھ کر دھک سے رہ جاتے ہیں کہ وہ ملنگ ہو گیا ہے۔ لمبا چوغا پہنتا ہے، گلے میں مالائیں لٹکی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور آتے ہی تقریباً فوت ہو جاتا ہے۔ اس سے کہانی آگے چلتی ہے اور بیاس کے خشک بیٹ میں موجود ایک ملنگ سامنے آتا ہے۔ بیٹ پر زمیندار قبضہ کرنا چاہتا ہے جس کی وجہ سے کرہ ارضی کے روحانی نظام میں خلل پیدا ہونے لگتا ہے۔

پھر کہانی فلیش بیک میں شہر چلی جاتی ہے۔ ادھر ایک بے شمار حسین اور وجیہہ قسم کا آبی انجینئیر سامنے آتا ہے جس پر اس کی نہایت خوبصورت ذاتی بیوی موجود ہونے کے باوجود محلے بھر کی بیویاں چپکے چپکے مرتی ہیں لیکن وہ وفا کا پتلا اپنی عفت کی حفاظت کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ لیکن ایک برساتی رات ایک ہمسائی اسے پائیں باغ میں چمٹ جاتی ہے اور کچھ غلط سلط کر دیتی ہے تو آسمان سے برسنے والے پانی کے ساتھ مچھلیاں بھی گرنے لگتی ہیں جو آبی انجینئیر کی بیوی کے اوپر بھی گرتی ہیں جو روش پر کھڑی بے حیائی دیکھ رہی ہوتی ہے اور پھر وہ مر جاتی ہے۔ ان صاحب کا مالی چار مچھلیاں اپنے گھر لے جاتا ہے اور تل کر اپنی بیوی کو کھلا دیتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ایک مہینے بعد اس کی بیوی کے ہاں ایک جل پری کی ولادت ہوتی ہے۔

پھر پتہ نہیں کیا گڑبڑ ہوتی ہے کہ اگلے برسوں میں دنیا بھر میں جل پریاں اور جل پرے پیدا ہونے لگتے ہیں۔ الٹی سیدھی گڑبڑ ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ پنجاب کے دریا خشک ہونا اور ڈیموں کی تعمیر وغیرہ ہوتی ہے۔ کافی گھمیریاں پڑتی ہیں۔ کچھ روحانی قوتیں ایٹمی جنگ کرانے کے چکر میں ہوتی ہیں۔ پانی مرنے لگتا ہے۔ اس کا پتہ ایک باتھ روم سے چلتا ہے۔ لیکن ناول کے آخر میں پانی مکمل طور پر فوت نہیں ہوتا۔ حاصل کلام یہی ہے کہ سر تو چکرا جاتا ہے لیکن کتاب دلچسپ ہے۔ پڑھ لینی چاہیے۔
قیمت 220 روپے۔ صفحات 188۔ پبلشر الفیصل، اردو بازار لاہور۔

جانور راج: تبدیلی کا خواب

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar