جانور راج: تبدیلی کا خواب


جارج آرویل کا مشہور ناول اینیمل فارم دوسری عالمی جنگ کے دوران لکھا گیا تھا اور 1945 میں شائع ہوا۔ یہ ایک فارم ہاؤس پر لکھا گیا ہے جس کے جانور باشعور ہو جاتے ہیں اور انسانوں کی ظالمانہ حکومت کے خلاف تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ یہ ناول روسی بالشویک انقلاب کے واقعات اور کرداروں کو جانوروں کے اس فارم میں سمو دیتا ہے۔ ناول میں ایک انقلاب کے خواب، اس کی جدوجہد، کامیابی کے لئے مختلف حربوں، اسے برقرار رکھنے کے لئے قربانیوں اور آخر میں انقلاب کی کامیابی کے بعد پرانے ساتھیوں سے پیچھا چھڑانے کے حالات کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ ناول بہت سی انقلابی تحریکوں پر فٹ بیٹھتا ہے اور اسی وجہ سے اسے عالمی ادب کا ایک فکر انگیز شاہکار قرار دیا جاتا ہے۔

جانور راج، تبدیلی کا خواب

(جارج آرویل کے ناول اینیمل فارم کا ترجمہ)
مصنف: جارج آرویل، مترجم: آمنہ مفتی۔

’ آدم باڑے ‘ کا مالک جانی، اس رات اس قدر مدہوش تھا کہ دڑبے تو بند کر دیے مگر دڑبوں اور باڑے کی کواڑیاں بھیڑنا بھول گیا۔ مدہوشی میں قدم رکھتا کہیں تھا، پڑتا کہیں تھا، ہاتھ میں پکڑی لالٹین کی روشنی کا دائرہ اس کے ساتھ ساتھ جھوم رہا تھا۔ صحن سے یوں ہی جھومتے ہوئے گزرا، پچھلے دروازے پہ جوتے اتارے، کھرے میں دھرے بئیر کے پیپے سے شراب کا آخری گلاس چڑھایا اور بستر پہ جا پڑا جہاں ’ بیگم جانی ‘ پہلے ہی پڑی سنا رہی تھیں۔

جیسے ہی خواب گاہ کی بتی گل ہوئی، باڑے کی تمام عمارتوں میں بیداری اور پھڑ پھڑاہٹ کی لہر سی دوڑ گئی۔ یہ بات تو دن ہی میں پھیل چکی تھی کہ بوڑھے انعام یافتہ گلابی سور میجر نے پچھلی رات ایک عجیب خواب دیکھا تھا اور یہ خواب وہ باقی سب جانوروں کو بھی سنانا چاہتا تھا۔

یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ جانی نام کے خطرے کے ٹلتے ہی وہ سب بڑے گودام میں ملیں گے۔ بوڑھے میجر ( یہ اس کی عرفیت پڑ چکی تھی حالانکہ جس نمایش میں اسے انعام ملا وہاں اسے، ’ ویلنگڈن بیوٹی‘ کے نام سے پیش کیا گیا تھا ) کی باڑے میں اس قدر عزت تھی کہ سب اس کی بات سننے کو ایک گھنٹے کی نیند برباد کرنے کو بھی تیار تھے۔

بڑے گودام کے ایک سرے پہ اک ذرا بلند، پیال پڑے چبوترے پہ، چھت کی بلی سے لٹکتی لالٹین کے تلے، میجر پہلے ہی براجمان تھا۔ میجر بارہ سال کا تھا اور گو اب کچھ دنوں سے ذرا زیادہ ہی چربا سا گیا تھا لیکن اب بھی وہ ایک شاندار سور تھا، جو کچلیاں نہ کاٹے جانے کے باوجود بھی بہت مدبر اور شفیق لگتا تھا۔ کافی دیر سے جانوروں کے آنے اور اپنے حساب کتاب سے ٹکنے بیٹھنے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔

سب سے پہلے تینوں کتے آئے، ’ بلیو بیل، جیسی اور پنچر‘ اور پھر سور۔ یہ سب چبوترے کے عین سامنے پیال پہ بیٹھ گئے۔ مرغیاں کھڑکیوں میں جا ٹکیں، کبوترشہتیروں پہ پھڑ پھڑا رہے تھے اور گائے بھیڑیں، پیال پہ، سؤروں کے پیچھے بیٹھ کے جگالی میں مصروف ہو گئیں۔ چھکڑا کھینچنے والے دونوں گھوڑا گھوڑی، باکسر اور کلوور، اپنے بڑے بڑے، سمور دار کھر بہت احتیاط سے رکھتے ہوئے آئے، مبادا پیال میں کوئی چھوٹے جانور پو شیدہ ہوں۔ کلوور ایک تگڑی، ادھیڑ عمر گھوڑی تھی، جو اپنے چوتھے بچھیرے کے بعد دوبارہ چھریری نہ ہو سکی۔ باکسر ایک جسیم حیوان تھا۔ قریباً اٹھارہ ہاتھ اونچا اور طاقت میں اکیلا ہی دو گھوڑوں کے برابر تھا۔ اس کی ناک سے نیچے تک ایک سفید لکیر ذرا احمق ہونے کا تأثر دیتی تھی اور سچ تو یہ ہے کہ وہ اعلیٰ درجے کی ذہانت کا حامل تھا بھی نہیں، لیکن اس کے کردار کی پختگی اور بے تحاشا کام کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے سبھی اس کی بے حد عزت کرتے تھے۔

گھوڑوں کے بعد سفید بکری، ’میورئیل‘ اور’ بنجامن‘ نامی گدھا آیا۔ بنجامن، فارم کا سب سے بوڑھا اور بد مزاج ترین جانور تھا۔ وہ شاذ ہی کبھی بات کرتا تھا اور جب بولتا تھا تو کوئی طنز جڑنے ہی کو بولتا تھا۔ مثلاً وہ کہا کرتا تھا کہ خدا نے اسے ایک دم دی تاکہ وہ مکھیاں اڑا سکے، مگر جلد ہی نہ دم رہے گی اور نہ ہی مکھیاں۔ باڑے کے تمام جانوروں میں ایک وہ ہی تھا جو کبھی نہیں ہنسا اگر پوچھا جاتا تو کہتا کہ اسے کبھی ہنسنے کے قابل کچھ نظر ہی نہیں آیا۔ اس افتادِ طبع اور کھلے عام اقرار نہ کرنے کے باوجود، وہ ’ باکسر ‘ سے محبت کرتا تھا ؛ دونوں بسا اوقات اپنی اتوار کی دوپہریں، پھلوں کے باغ سے ذرا پرے واقع، احاطے میں، بنا کچھ بولے، ساتھ ساتھ چرتے گزارتے تھے۔

دونوں گھوڑے ابھی بیٹھے ہی تھے کہ، بطخ کے بچوں کا ایک جھلر، جن کی ماں حال ہی میں مری تھی، قطار بنائے، کمزور آوازوں میں قیں قیں کرتا، گودام میں داخل ہوا اور ادھر ادھر گھوم کے ایسی جگہ تلاش کرنے لگا جہاں وہ کسی کے پاؤں تلے کچلے نہ جائیں۔ ’ کلوور‘ نے اپنی اگلی لاتوں سے ان کے لئے ایک دیوار سی بنا دی اور وہ اس میں گھس گھسا کے فوراً ہی سو گئے۔ سب سے آخر میں، ’ موولی‘ بونگی گھوڑی، جو جانی صاحب کا یکہ کھینچا کرتی تھی، بڑی نزاکت سے گڑ کی ایک بھیلی کو دانتوں تلے کچلتے ہوئے آئی۔ اس نے سامنے ایک جگہ، سنبھالی اور اس امید پہ اپنی سفید ایال سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی کہ کوئی اس میں گندھے لال موباف کا ذکر چھیڑے۔

سب سے آخر میں بلی آئی اور حسبِ معمول سب سے نرم گرم جگہ کی تلاش میں نظریں دوڑائیں اور آخر، ’ باکسر ‘ اور ’ کلوور‘ کے درمیان، جا گھسی، جہاں وہ تقریر ختم ہونے تک، میجر کے کہے کا ایک لفظ بھی سنے بغیر سکون سے خر خر سوتی رہی۔

اب سارے جانور ماسواء ’ منوا ‘ کے جو ’جانی صاحب‘ کا پالتو پہاڑی کوا تھا، آچکے تھے۔ وہ پچھلے دروازے پہ اپنے اڈے پہ سورہا تھا۔ جب میجر نے دیکھا کہ سب آرام سے بیٹھ چکے ہیں اور ہمہ تن گوش ہیں تو وہ کھنکھارا اور یوں گویا ہوا۔

”کامریڈز! آپ سب اس عجیب خواب کے بارے میں جان ہی چکے ہیں جو میں نے کل رات دیکھا۔ مگر میں اس خواب پہ بعد میں بات کروں گا۔ پہلے میرے پاس کہنے کو کچھ اور ہے۔ میں نہیں سمجھتا کامریڈز! کہ میں اگلے چند ماہ تک جی پاؤں گا، اس پہلے کہ میں اس جہانِ فانی سے کوچ کروں، میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ جو سوجھ بوجھ میں نے حاصل کی، آ پ تک منتقل کر جاؤں۔ میں نے ایک طویل عمر پائی اور جب میں اپنے تھان پہ تنہا لیٹا ہوتا تھا تو میرے پاس سوچنے کو بہت وقت ہوا کرتا تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں اس دنیاوی زندگی اور اس کے ساتھ ساتھ جانوروں کی اصل کو پا چکا ہوں۔ یہ ہی وہ سچ ہے جس کے بارے میں آج میں آ پ سے بات کروں گا۔

اب، کامریڈز!ہماری اس زندگی کی اصل کیا ہے؟ آئیے! اس سچ کا سامنا کریں۔ ہماری زندگیاں، دکھ اور مشقت سے بھری اور مختصر ہیں۔ ہم پیدا ہوتے ہیں، ہمیں صرف اتنی خوراک دی جاتی ہے کہ کہ سانس کا رشتہ جسم سے برقرار رہے اور ہم میں سے جن کی بساط ہے انہیں، زبردستی، اس وقت تک کام کرنے پہ مجبور کیا جاتا ہے، جب تک ہمارے جسم میں توانائی کا آ خری ذرہ بھی باقی ہو ؛اور جس لمحے ہماری افادیت ختم ہوتی ہے ہمیں وحشت انگیز اور ظالمانہ انداز میں ذبح کر دیا جاتا ہے۔ انگلستان کا کوئی بھی جانور، ایک سال کی عمر کے بعد، خوشی اور فرصت کے معنی بھی نہیں جان پاتا۔ انگلستان میں کوئی بھی جانور آزاد نہیں۔ ایک جانور کی زندگی، بس دکھ اور غلامی ہے۔ یہ ہی کھرا سچ ہے۔
( جاری ہے )

اس سیریز کے دیگر حصےجانور راج: میجر کی انقلابی تقریر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).