عورت، آئیڈیل اور بھیڈو


بعض موضوعات ایسے ہوتے ہیں جن پر مرد و خواتین، لبرل و قدیم ( قدامت پسند ) ، قاہر و کریم غرض یہ کہ ہر ایک سے گالیاں سننا پڑتی ہیں اور بعض اوقات تو بندہ بدمزہ بھی ہوتا ہے کیونکہ سارے لب شیریں نہیں ہوتے، کچھ پر پپڑی جمی ہوتی ہے۔

دراصل میں جب بھی عورتوں کی آزادی کے بارے میں لبرلز کے نعرے سنتا ہوں تو ”اک آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ / اپنے دل پہ مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے“۔ میں یہ ثابت کرنے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا کہ حالات خیالات کی تعبیر کرتے ہیں اور معاشی حالات میں تبدیلی لامحالہ عورتوں کے رتبے میں بھی تبدیلی لاتی ہے ویسے بھی عورتیں اگر بڑھ کر اپنا کوئی حق لینا چاہتی ہیں تو میدان میں کود پڑیں۔ یہ سارا کام نام نہاد لبرلز اور این جی اوز پر کیوں چھوڑا ہوا ہے۔

میری ماں ایک سکول ٹیچر تھیں۔ ان کا بازو ٹوٹ گیا اور پلستر ہو گیا۔ پھر ہڈی غلط جڑ گئی اور دوبارہ آپریشن ہوا۔ اس سارے عمل میں دو برس بیت گئے اور مجھے یاد ہے انہوں نے ایک بازو پر میری بہن کو اٹھایا ہوتا تھا اور پلستر والے بازو کے کاندھے میں بیگ لٹکایا ہوتا تھا۔ تانگے میں بیٹھ کر پڑھانے جاتی تھیں۔ گھر کا کام خود کرتیں یا اپنی نگرانی میں کرواتیں۔ ہمیں پڑھاتی بھی تھیں اور گھر کا بجٹ بھی چلاتیں اور والد بھی یہ سمجھتے تھے کہ وہ زیادہ بہتر گھر چلا سکتی ہیں۔ اپنے خیالات اور فیصلوں میں بہت آزاد تھیں۔ شاید ہی کوئی فیصلہ ان کی مرضی کے خلاف ہوا ہو۔ اس کی بڑی وجہ میرے باپ کا ترقی پسند ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا معاشی طور پر انڈیپینڈنٹ ہونا بھی تھا جو شاید نظر نہیں آتا تھا اور یہی اس تعلق کی خوبصورتی تھی۔

آج بھی عورت اپنے معاملات میں کہیں مجبور ہے تو پیچھے معاشی مجبوری کھڑی ہے۔ معاشی طور پر آزاد خواتین اپنے فیصلوں میں بھی آزاد ہوتی ہیں۔ جہاں سماجی بندھنوں کا معاملہ ہے وہاں مرد بھی بے بس ہے۔ طاقتور مرد روایات سے ٹکرا جاتے ہیں اور سماج پر اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں جبکہ کمزور اس میں پھنس جاتے ہیں۔

کچھ لوگ عورتوں ک عورت سے زیادہ وفادار بن کر کہہ دیتے ہیں کہ وہ سب کچھ کر سکتی ہے جو مرد کرتے ہیں۔ بھولے شری کانت کے سامنے جب کسی نہ یہ احمقانہ دلیل دی تو ناہنجار کہتا ہے، ”ایسی ہی بات ہے تو یہ بتاؤ خصیوں پر گیند کھا سکتی ہے؟ “۔ آپ جب بھی عورت کو سماجی و معاشی مجبوریوں سے علیحدہ کر کے دیکھیں گے تو ایسی ہی خرافات سننے کو ملیں گی۔

ہماری کالونی میں ایک نعیم بھیڈو صاحب رہا کرتے تھے۔ ذرا قد کاٹھ نکالا تو سوچا کسی پر عاشق ہوا جائے۔ ساتھ والے بنگلے میں ایک دوشیزہ رہتی تھیں جن کا نخرہ آسمان پر تھا اور ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ کسی نے انہیں بہت خوبصورت اور سنگدل ہونے کا احساس دلایا ہوا تھا۔ نعیم بھیڈو صاحب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ انہیں پروپوز کر دیا۔ خاتون سنگدل ہونے کے ساتھ ساتھ سمجھدار بھی تھیں۔ انہوں نے سوچا اگر فتراک میں ایک اور نخچیر کا اضافہ ہو جائے تو کیا برا ہے۔ جو سب سے اچھا ”پیس“ ہو گا ان کے لیے حلف وفاداری اٹھا لیں گی۔ بس جھٹ سے کہہ دیا، ”نعیم تم سی ایس ایس کر لو پھر میں تمہاری ہو سکتی ہوں“۔

بھیڈو صاحب جو کہ انڈر میٹرک تھے اور کتاب پڑھتے ان کی آنکھوں میں پانی آجاتا کہا کرتے، ”اللہ ایک بار جیون ملا اور وہ بھی آنکھیں کالی کرنے میں ضائع ہو جائے گا۔ وہ کیسے خوش قسمت ہیں جو منہ کالا کر لیتے ہیں لیکن وقت ضائع نہیں کرتے“ بھاگم بھاگ ہمارے پاس آئے۔ انہیں بتایا گیا کہ بھائی بہت سی چیزیں ازبر کرنی پڑتی ہیں، وقت دینا پڑتا ہے۔ ڈنگر کر ساتھ ڈنگر ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے ایک دوست کا خیال تھا کہ ڈنگروں کا امتحان ہی ایسے ہوسکتا ہے۔ سوچنے سمجھنے والوں کا نہیں۔ خیر نعیم بھیڈو چلا گیا۔

خاتون نے جب اسے چپ دیکھا تو ایک دن بلا کر پوچھا، ”تمہارا جذبہ کیا ہوا؟ “۔ بھیڈو بولا اگر سول سرونٹ بن گیا تو تم ہی رہ گئی ہو شادی کرنے کے لیے۔ بھیڈو صاحب چاہتے تھے کہ ان میں چھپا گوہر شادی سے پہلا تلاش کیا جائے اور ایسے ہی گوہر تلاش کرنے کے مواقع انہیں دیے جائیں تاکہ ایک دوسرے کو سمجھنے میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ چاہے گوہر مٹی ہو جائے۔

ایسے ہی آئیڈیل کی تلاش میں سرگرداں ایک خاتون کو منانے کی ہر ممکن کوشش ہوئی کہ آئیڈیل سلمان خان جیسی باڈی اور برٹرینڈ رسل جیسا دماغ بیک وقت نہیں رکھ سکتے اور اگر رکھیں گے بھی تو شاید آئیڈیل ڈھونڈنے والے کو چغد سمجھیں لیکن خاتون مصر رہیں اور آج کل نعیم بھیڈو کی بیوی ہیں۔ نعیم بھیڈو سول سروس کا امتحان پاس کر کے کسٹم میں چلا گیا تھا اور بہت پچھتاتا ہے کہ ہر راہ چلتی خاتون پر مر مٹنے کی بجائے کسی آئیڈیل عورت کو ڈھونڈنا چاہیے۔

پچھلے دنوں عالیہ نذیر سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ نوجوان لڑکیاں شادی شدہ لیکن سیٹلڈ ( کھاتے پیتے ) مردوں کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں چاہے ان کے گیارہ بچے ہی کیوں نہ ہوں۔ ویسے بھی گیارہ بچے پیدا کرنے پر عورت اس قلعہ کی طرح ہوتی ہے جسے بار بار فتح کیا گیا ہو، مرد تو تلوار کی طرح ہوتا ہے جو جتنا چلتی ہے اتنا نکھرتی ہے ( ایس گل تے گالاں پینیاں نیں ) ۔ مرد چاہتا ہے وہ عورت کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد ہو اور عورت چاہتی ہے وہ مرد کی زندگی میں آنے والی آخری عورت ہو لہذا مرد کے ماضی کا بھی مسئلہ نہیں ہوتا اور عورت کا تو یہ حال ہے کہ اس کے متعلق تو جھوٹے خط پر علامہ اقبال نے اپنی بیوی کو چھوڑ دیا تھا گو کہ بعد میں پھر اپنا لیا۔

خواتین کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو جذباتی اور جنسی طور پر ”نواں نکور“ مرد چاہتی ہیں شادی کرنے کے لیے۔ یہ بھی بہت بڑا رسک ہوتا ہے کیونکہ جذباتی طور پر ”چھوئی موئی“ مرد ہر عورت میں اپنی امی ہی ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ ویسے تو عورت کے لیے ہر عاشق بچوں جیسا ہی ہوتا ہے لیکن بیویوں کے لیے ایسے شوہر بڑی مصیبت کھڑی کر سکتے ہیں اس لیے سمجدار خواتین ایسا بندہ زیادہ پسند کرتی ہیں جو تھوڑا ”رواں“ ہو لیکن بس ”رواں“ ہو چلا ہوا کارتوس نہ ہو۔ یہ محبت اور ائیڈیل عورت کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ مرد ان خرافات سے جلد آزاد ہو جاتا ہے۔ عورت شاید کبھی نہیں ہوتی لیکن اس نے یہ سارے آئیڈیل ایک چھوٹی سی ڈبیا میں ڈال کر دل کے نہاں خانوں میں کہیں رکھے ہوتے ہیں اور چاندنی راتوں میں وہ چپکے سے انہیں نکالتی ہے۔ اپنی گرم سانسوں سے اس پر پڑی گرد ہٹاتی ہے اور ذرا سی آہٹ پر چونک کر وہ ڈبیا بند کر دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).