غزل، موسیقی اور پر امن چترال


انسان ایک عظیم تخلیق کار ہے، یہ تخلیق کاری ہی ہے جو انسان کو دوسرے تمام مخلوقات سے ممتاز بناتی ہے اور یہ تخلیق ہی کی خاصیت ہے جو نہ صرف انسان کی بقا کا مؤجب ہے بلکہ اس کی بدولت انسان سخت سے سخت ماحول کو بھی اپنے لیے پرتعیش اور قابل تفریح بناتی ہے۔ ثقافت کی تخلیق اور اس کا ارتقاء انسان کی اس تخلیقی صلاحیتوں کا ایک عملی نمونہ ہے۔ ایسے ہی عظیم شاہکاروں میں سے ایک شاہکار پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں واقع ضلع چترال کے باسیوں نے تخلیق کی ہیں۔

صدیوں تک وادی چترال اپنے مخصوص جغرافیائی اور موسمی حالات کی بدولت باقی ماندہ دنیا سے کٹی ہوئی اور الگ تھلک رہی۔ بنیادی سہولیاتِ زندگی اور وسائل سے ناپید وادی میں انسانی بقاء ہی ایک بہت بڑا چیلنج تھا، موسم کی سختی، زرعی زمین کی کمی اور نتیجے میں فراغت کے لمحات کی زیادتی شاید اس وادی سے انسانی وجود کو ہی ختم کر دیتی اگر انسانی تخلیق کاری اڑے نہیں آتی۔ اس تخلیق کاری نے یہاں کے باسیوں کو ایک ایسا خوبصورت تحفہ دیا جو نہ صرف یہاں کی مشکلات زندگی کے سارے تکالیف بھلا دیے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ارتقاء کے منازل طے کرتے کرتے ایسے مقام پر پہنچ گئی جو آج نہ صرف اس وادی کی پہچان بن چکی ہے بلکہ پورے ملک کو اپنے انداز میں امن کا پیغام دے رہی ہے۔ امن و محبت کا یہ خوبصورت تحفہ کوئی اور چیز نہیں بلکہ ”چترالی غزل اور موسیقی“ ہے۔

موسیقی کو روح کی غذا سمجھا جاتا ہے، بہت سے لوگوں اس سے اختلاف رکھیں، لیکن وہ لوگ ضرور اتفاق کریں گے، جنہیں موسیقی بالخصوص چترالی موسیقی سے لگاؤ ہوں۔ آبادی اور سامعین و ناظرین کے محدود ہونے کے باوجود چترالی ادب نے ایسے پائے کے شغراء اور گلوکار پیدا کیے جنہیں سن کر اہل ذوق پر وجد کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ بابا سیار سے لے کر افضل اللہ افضل اور فاتح شکست سے ہوتے ہوئے عبدل اللہ شہاب اور منور زریف تک وادی چترال نے ایسے چوٹی کے ادیبوں کو جنم دیا کہ وادی چترال میر اور غالب کے زمانے کے دہلی اور لکھنو کا منظر پیش کرتی ہے۔

گلوکاری میں بابا فاتح ہو یا پھر بلبل چترال منصور شباب ہوں کہ انصار الٰہی، چترالی ستار کی ساز کے ساتھ سامعین کسی اور ہی جہان میں چلے جاتے ہیں جس کی خوبصورتی کو صرف محسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ چترالی زبان سمجھنے والے اگر محدود نہ ہوتے تو وادی چترال کے ادیب و گلوکاروں کا بین و الاقوامی نہ سہی ملکی سطح پر ضرور نام ہوتا۔

موجودہ صدی میں جہاں دہشت گردی کی جنگ میں ہم نے 60 ہزار سے زائد معصموں کو گنوا چکے ہیں، چترال ہی پاکستان کا وہ وادی ہے جہاں ابھی تک انتہا پسندی و دہشت گردی کے بادل نہیں پہنچے اور پہنچ بھی نہیں سکتے کیونکہ ہمارے پاس امن و محبت کے پیغام رساں جو ہمارے شعراء و گلوکاروں کی صورت میں موجود ہیں۔ بلا یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ نوجوان جو افضل کے فلسفہ شاعری، آفتاب کے ستار کی ساز اور شباب کی مصحور کن آواز سن کر امن ومحبت کے نشے میں مست ہو جاتا ہو، وہ کیسے انتہا پسندی اور تششدد کے قریب جا سکتا ہے؟

جن کا جنون ہی عشق ہوں ان کا جرائم سے بلا کیا لینا دینا؟ یہاں کی ثقافت ہی ایسی ہے کہ منصور شباب کے نقش و قدم پر انصار الہی جنم لیتا ہے تو علی ظہور کے ستار کے سروں کی سرسراہٹ سے نئے دور کا آفتاب عالم آفتاب طلوع ہوتا ہے، تو بابا سیار اور افضل کی فلسفے سے متاثر ہو کہ عبداللہ شہاب اور منور زریف نوجوانوں کو امن کا درس دیتے ہیں۔ جہاں مثل خانی کردار لوگوں کے لبوں پر مسکراہٹ بھکیرتے ہوں وہاں کی مٹی میں احسان اللہ احسان اور خادم رضوی جیسے تشدد پسند نہیں بلکہ منور رنگین کا ظہور ہوتا ہے جو دلوں کو رنجشوں سے دور لے اتی ہے۔ ایسے میں سول سوسائیٹی سکول وکالج ہو کہ سڑک و بجلی گھر اپنی مدد اپ کے تحت اپنے کدال و رسی لے کر اپنی ترقی کا ذمہ خود ہی اٹھا لیتے ہیں بجائے کسی مسیحا کا انتظار کرنے کے۔ آج چترال تعلیم کے لحاظ سے صوبے میں دوسرے اور ملک میں 46 نمر پر ہے۔ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں بھی آگے ہو گی۔

نتیجتاً چترال ملک کا واحد ریجن ہے جہاں جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں، جہاں ریاست کے خلاف جانا تو دور کی بات کسی معمولی سی قانون شکنی کو بھی لوگ بہت بڑا گناہ سمجھتے ہیں۔ جہاں ریاست کچھ کرے یا نہ کرے، حکومت نام پر لوگوں کو بھروسا ہے۔ جہاں حکومت لوگوں کو حقوق دے یا نہ دے، شہری اپنے ذمہ داریاں نبھانا فرض سمجھتے ہیں۔ جہاں بجلی یا پھر کسی دوسرے سرکاری املاک کی چوری کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، جہاں حکومت بجلی دے یا نہ دے، عوام بل حکومت کا حق سمجھتے ہیں۔

مگر بڑے دکھ کی بات ہے کہ ہمارے نظام میں امن کے پیغام رسانوں کو ان کا وہ مقام نہیں ملتا جس کے وہ مستحق ہیں۔ ہمارے صحافی احسان الہ احسان کا انٹروؤیو کر سکتے ہیں، تخریب کاروں پر پروگرام کر سکتے ہیں مگر منصور شباب جیسے امن کے سفیروں کے لئے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ ہماری حکومت انتہا پسندی پر کروڑوں خرچ تو کر سکتی ہے مگر امن کا گہوارہ وادی چترال، پاکستان کا وہ چہرہ جسے دنیا کو دکھانے کی اشد ضرورت ہے، پر کبھی توجہ نہیں دیتی۔ چترالی عوام تو امن کے سفیر اپنے ہیروؤں کو پلکوں پہ بیٹھاتے ہیں، کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومتی اور دوسرے فلاحی ادارے بھی ان عظیم تخلیق کاروں کو ریکگنائز کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).