مقتول نقیب اللہ محسود


نقیب اللہ محسود کو شہید کیوں نہیں لکھا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست نے روز اول سے پشتون قوم کو شہید، شہادت اور قربانی کے الفاظ سے ورغلایا ہے۔ مقتول نقیب اللہ محسود ایک خوبرو، نیک اور غیر سیاسی نوجوان تھا۔ وہ کراچی میں چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرتا تھا۔ کراچی کے خراب حالات میں دیگر اقوام کی طرح کئی ہزار پشتون بھی اپنی جان سے گئے۔ انہی حالات کے تسلسل میں نقیب اللہ بھی مارا گیا۔ مبینہ طور پر پہلے پہل پولیس مقابلے میں اس کی ہلاکت ظاہر کی گئی۔

درحقیقت مقتول نقیب اللہ کو پولیس اغواء نما طور پر گرفتار کر کے لے گئی تھی۔ اس واقعے کے عینی گواہ موجود ہیں۔ اغواء کے کچھ دنوں بعد اس کی لاش ایدھی سرخانے سے ملی۔ پہلے پہل رینجرز اور ایدھی انتظامیہ نے ورثاء کو میت دینے سے انکار کردیا تھا۔ لیکن ہاشم مندوخیل، سیف افغان اور دیگر نے سوشل میڈیا پر رینجرز اور ایدھی انتظامیہ کی خبر لی اور لاش وصول کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

اسی وقت پولیس ایس پی راؤ انوار نے پریس ریلیز کے ذریعے نقیب اللہ کو بیت اللہ محسود کا ڈرائیور بتاتے ہوئے پولیس مقابلے میں ہلاکت کی تصدیق کر دی۔ مقتول نقیب اللہ کے اہل خانہ کے ساتھ اظہار یک جہتی کے طور ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔ جس میں مقتول کے اہل خانہ کو انصاف دلانے کا مطالبہ کیا گیا۔ کویٹہ کے مظاہرے میں راقم بھی دیگر ساتھیوں کے ساتھ شریک تھا۔

انہی دنوں ایس پی راؤ انوار کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا۔ جس میں وہ قصور وار پائے گئے اور مقتول نقیب اللہ کی معصومیت اور بے گناہی پر مہر لگایا گیا۔ ایس پی راؤ انوار پر کئی سو مقتولین کو قتل کرنے کا الزام ہے۔ راؤ انوار وہ متنازع شخص ہے، جو مرتضی بھٹو کی آخری گھڑیوں میں اس کے ساتھ ہسپتال میں کھڑے ہیں۔ اعلی عدلیہ نے راؤ انوار کو معطل کر کے اس کا ٹرائل شروع کیا لیکن راؤ انوار کو ہر طرح کی سہولتیں پہنچا کر اور پر تعیش زندگی فراہم کر کے انتظامیہ اور اعلی عدلیہ نے جانب داری کا تاثر دیا۔

ایسی صورت حال میں پشتون تحفظ موومنٹ نے اسلام آباد میں دھرنا دے کر اور کئی شہروں میں تاریخی جلسے کر کے نقیب اللہ محسود کے لئے آواز اٹھائی۔ لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود یہ کوششیں کارگر ثابت نہ ہوئیں۔ کیونکہ راؤ انوار کی معطلی ختم کر کے اس کو جیل سے گھر منتقل کر دیا گیا ہے۔ راؤ انوار نے ایک عام اور معصوم شہری کی طرح پنشن لی اور ان دنوں باہر جانے کے لئے راستے ہموار کر رہا ہے۔ انتظامیہ اور اعلی عدلیہ کے ساتھ اس کے برتاؤ کو دیکھتے ہوئے یہ لگتا ہے کہ وہ جلد یا بدیر پاکستان سے اڑن چھو ہوجائے گا۔

انتظامیہ کے پینتیسویں ستون ”محکمہ دفاع“ کی ذیلی شاخ بری کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے نقیب اللہ کے والد کے ساتھ غمرازی کی اور اس کے ساتھ وعدہ کیا کہ نقیب اللہ کا خون ضائع نہیں جائے گا۔ اس کے ساتھ مکمل انصاف کیا جائے گا۔ سابق اپوزیشن راہنما عمران خان نے پی ٹی ایم کے اسلام آباد دھرنے میں نقیب اللہ محسود کے قاتل کو سزا دینے کا مطالبہ کیا لیکن باجوہ صاحب کی طرح وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب نے بھی الفاظ کا کھیل کھیلا۔ وزیر اعظم عمران خان خاموش تماشائی بن کر قاتلوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بن رہے ہیں۔

آج نقیب اللہ محسود کے سفاکانہ قتل کو ایک سال پورا ہونے والا ہے لیکن تاحال اسے انصاف نہیں ملا ہے سپریم کورٹ کا چکر پہ چکر لگا کر اس کے بچوں اور بوڑھے والد کے جوتے گھس گئے ہیں لیکن انصاف کے طلبگاروں کو بہرے، گونگے اور بے حس قاضیوں سے تاحال انصاف نہیں ملا ہے۔ کل ملا کر مقتول کے ورثاء اس نتیجہ پر پہنچ گئے ہیں کہ ”سب ملے ہوئے ہیں“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).