جج انصاف سے ہٹے تو اس کا چہرہ چغلی کھاتا ہے


کسی دانشور کا قول پڑھا تھا کہ تعلیم کی حفاظت مطالعہ سے ہوتا ہے۔ اس لیے اس سرمائے کی حفاظت کے لیے کتب بینی میرا محبوب مشغلہ ہے۔ یہ چسکا جسے پڑ جائے تو پھر مشکل سے چھوٹتا ہے۔ کتب بینی میرا محبوب مشغلہ ہے۔ فجر کی نماز کے بعد الطاف حسن قریشی کی کتاب ”ملاقاتیں کیا کیا“ کی ورق گردانی کر رہا تھا ایک جگہ نظریں رک گئی ”سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس کارنیلیس دوران انٹرویو قریشی کو بتا رہے تھے پاکستانی عدلیہ کبھی گراوٹ کا شکار نہیں ہو گی اس کی بڑی وجہ یہ ہے۔ کہ جج کے لیے جادہ حق سے ہٹنا حد درجہ مشکل ہے۔ دراصل مخالف وکلاء اپنے دلائل اور واقعات کے تجزیے سے صورت حال اس قدر واضح کر دیتے ہیں کہ جج کے لیے انصاف سے گریز ممکن نہیں رہتا جب جج عدالت کی کرسی پر بیٹھتا ہے۔ تو اس میں یہ احساس پوری شدت سے بیدار اور تازہ ہوتا ہے۔ کہ اس کا منصب بہت نازک ہے۔ اور اس کا فریضہ اس قانون کا تحفظ ہے۔ جو انسان کا تعلق خدا سے جوڑتا ہے۔ یہی احساس اس کو منصف مزاج بنائے رکھتا ہے۔ اگر کوئی جج انصاف سے ہٹنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا چہرہ اس کے ارادے کی چغلی کھاتا ہے“

قیام پاکستان سے آج تک دسیوں اشخاص قاضی القضاء کے منصب پر بیٹھے وکلاء برادری کے علاوہ شاید ہی ان کے نام سے کسی کو آگاہی ہو۔ پاکستان میں جب بھی فوج منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کرتی ہے تو عدلیہ باندی بن کر اس کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوتی ہے۔ جسٹس منیر کی یاد اس وقت آتی ہے جنہیں ”نظریہ ضرورت“ کا بانی کہا جاتا ہے۔ پھر سجاد علی شاہ عوام کو ذہنوں میں بھی باقی ہیں۔

جسٹس افتخار چوہدری پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں سوموٹو کے حوالے سے جانے جاتے ہیں ایک بار انھوں نے چکوال میں کسی کی بکریاں گم ہونے پر بھی سوموٹو لیا تھا اس کے علاوہ ان کے بیٹے پر جب کرپشن کیس بنا تو انھوں نے خود کو اس بنیچ میں شامل کر لیا تھا اس واقعہ سے ان پر شدید تنقید بھی ہوئی تو انھوں نے اپنے آپ کو اس بنیچ سے علیحدہ کر لیا۔

جسٹس تصدق جیلانی، جسٹس ناصرالملک، جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس انور ظہیر جمالی کو وہ شہرت نہ ملی جو جسٹس ثاقب نثار کو ملی۔
آسمانوں اور زمینوں کی وسعتوں کا بادشاہ صرف اللہ ہے۔ دنیا کے عہدے عارضی ہوتے ہیں اللہ اختیار عنایت کر دے تو اس کی امانت سمجھ کر خلق خدا کی بھلائی کے لیے تمام تر صلاحتیں بروئے کار لانی چاہئیں۔

چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا آج بھی تاریخ اسلام میں قاضی شریح کے فیصلے سہزی حروف میں چمک رہے ہیں قاضی شریح کے دلچسپ فیصلوں میں سے ایک یہ عجیب و غریب اور حیرت انگیز فیصلہ بھی تھا۔ ایک دن بیٹے نے کہا: ابا جان! میرے اور فلاں قوم کے درمیان آج جھگڑا ہوا ہے، اگر فیصلہ میرے حق میں ہو تو انہیں گھسیٹ کر عدالت میں لے آؤں اور اگر اُن کے حق میں ہو تو میں صلح کر لوں۔ پھر جھگڑے کی ساری تفصیل باپ کے گوش گزار کر دی۔

آپؒ نے کہا: جاؤ، انہیں عدالت میں لے آؤ۔ وہ خوشی خوشی مخالفین کے پاس گیا اور انہیں عدالت میں لے آیا۔ قاضی شریح نے مقدمے کی سماعت کے بعد بیٹے کے خلاف فیصلہ سنا دیا۔ وہ لوگ خوش و خرم واپس لوٹے اور بیٹا کبیدہ خاطر افسردہ و شرمندہ منہ لٹکائے ہوئے عدالت سے باہر آ گیا۔ جب قاضی شریح اور اُن کا بیٹا گھر پہنچے تو بیٹے نے باپ سے کہا: ابا جان! آپ نے مجھے رسوا کیا۔ اگر میں نے آپ سے مشورہ نہ لیا ہوتا تو کوئی بات نہ تھی۔ افسوس یہ ہے۔ کہ میں نے آپ سے مشورہ لے کر عدالت کا رخ کیا اور آپ نے میرے ہی خلاف فیصلہ دیدیا۔ لوگ میرے متعلق کیا سوچتے ہوں گے؟

قاضی شریح نے جواب دیا: بیٹا دنیا بھر کے لوگوں سے مجھے تو عزیز ہے۔ لیکن یاد رکھ، اللہ کی محبت میرے دل میں تیرے پیار پر غالب ہے۔ مجھے اندیشہ تھا، اگر میں تجھے مشورے کے وقت بتا دیتا کہ فیصلہ اُن کے حق میں ہو گا تو اُن سے صلح کر لیتا اور وہ اپنے حق سے محروم رہ جاتے، اِس لیے میں نے تجھے کہا کہ انہیں عدالت میں لے آؤ تاکہ عدل و انصاف سے اُن کا حق انہیں مل جائے۔

بات دور نکل گئی جسٹس ثاقب نثار کی شہرت کی بات ہو رہی تھی جب وہ قاضی بنے تو انھوں نے ایسے متنازع فیصلے دیے کہ خلق خدا انھیں تنقید کا نشانہ بنانے لگی۔ جسٹس کار نیلیس کی باتوں کو دیکھا جائے تو دور دور تک ان فیصلوں میں شائبہ تک نظر نہیں آتا اور یہ تاثر ابھرتا ہے کہ دباؤ میں آ کر فیصلے کیے گئے جو ایک ایک کر کے رد ہو رہے ہیں۔

دباؤ کی بات ہو تو آج قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کو کور کرنے کے بعد نکل رہا تھا کہ کے پی کے سابق وزیراعلیٰ پیر صابر شاہ مل گئے۔ ان کے ساتھ گفت و شنید ہوئی بتا رہے تھے کہ پاکستان میں عدلیہ اور مولوی ہر دور میں باندی بنے ایسا ہی کچھ اس بار ہوا۔

سترہ کو جسٹس ثاقب نثار مدت ملازمت پوری کر کے رخصت ہو رہے ہیں وہ کیا لیگیسی چھوڑ کر جا رہے ہیں اس کا فیصلہ مورخ کرے گا۔
انھوں نے جتنے بھی مشہور فیصلے دیے وہ متنازع بنے، لوگوں کو مناصب سے ہٹایا۔ لوگ بحال ہوتے رہے۔ تاریخ بے رحم ہوتی ہے۔ مورخ کا قلم بکا نہ تو سب کچھ روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui