جتنے بھی اقدامات اٹھائے وہ حدود سے متجاوز نہیں تھے : چیف جسٹس


چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ عوام ملک میں تبدیلی اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں۔ اسلام آباد میں پولیس اصلاحات سے متعلق ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ پولیس ریفارمز سے متعلق کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وقت کے مطابق پولیس میں اصلاحات نہیں لائی گئیں، اے ڈی خواجہ کیس سے پہلے پولیس ریفامز پر دھیان نہیں دیا گیا۔ کہا گیا کہ ڈی پی او پاکپتن کیس پر ازخود نوٹس کیوں لیا؟

انہوں نے کہا کہ نظام انصاف کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے جب کہ امن و امان برقرار رکھنے اور قانون پر عملداری میں پولیس کا کردار اہم ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے پولیس کو غیر سیاسی اور عوام دوست بنانا ہے، مجھے یقین ہے کہ پولیس میں اصلاحات کے لیے کمیٹی کی سفارشات کو قانونی شکل دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کی جانب سے کرپشن یا اختیارات سے متجاوز کے کیس عدالت میں آئے، ان کیسز کو عدالت نے حل کیا اور انتظامیہ کو دوبارہ ایسا کرنے سے منع کیا۔

صحت کے شعبے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب شعبہ صحت نے صحیح طریقے سے کام نہ کیا تو ان کو گائیڈ لائن دی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے دائرے میں رہ کر انتظامیہ کو ہدایات دیں، ہم نے جتنے بھی اقدامات اٹھائے وہ حدود سے تجاوز نہیں تھے، ریاست کے کسی بھی ادارے کے کام میں مداخلت کی کوشش نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ نے عوام کا اعتماد حاصل کیا ہے، 85 فیصد کیسز نمٹائے گئے اور عوام کو ریلیف فراہم کیا گیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ عوام کرپشن اور سفارش کلچر نہیں تبدیلی اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں۔ تمام فیصلے دیانتداری سے اور معاشرے کی بہتری کے لیے تھے، نظام انصاف کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ پاکستان کے لوگ ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں، سوال یہ ہے کہ 40 سال میں ملک میں کوئی ڈیم کیوں نہیں بن سکا؟
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).