میں تو لہور چلا آیا


لاہور جانے کو بڑا دل کرتاہے لیکن اسلام آباد ہے کہ اپنے میں ایسا رچ بس گیا ہے کہ کہیں جانے کا ہی نہیں چھوڑا ہے، آخری بار لاہور اسوقت گیا تھا جب چودھری پرویزالہی بحیثت پنجاب کے طاقتور وزیراعلی اپنے اقتدار کے دن مکمل کرکے گھر پہنچ گئے تھے۔ ادھر نوازلیگ پنجاب اور پیپلزپارٹی نے مرکز میں اقتدار سنبھال لیا تھا۔ چودھری برادران کے لئے اپوزیشن کی صورت میں مشکل دنوں کا آغاز یوں ہوچکا تھا کہ وردی کے ساتھ اقتدار انجوائے کرنے کا وقت الیکشن کے نتیجہ کے بعد ختم ہو گیا تھا۔

اس سیاسی صورتحال میں چودھری پرویز الہی کی خواہش تھی کہ ان کا سرائیکی ٹی وی چینل روہی کے لئے انٹرویو کیجائے، وہ جنوبی پنجاب کے عوام کو اپنے دور حکومت کے اپنے تئیں کیے گئے تاریخی اقدامات بارے آگاہ کرنا چاہتے تھے اور سرائیکی ٹی وی چینل روہی سے کوئی اچھا چینل نہیں تھا جوکہ ان کو سرائیکی عوام سے براہ راست ملاقات کروادیتا۔ ادھر ہم بھلا چودھری پرویز الہی کو کب انکار کررہے تھے لیکن اس کے باوجود ملتان پریس کلب کے صدر شکیل انجم جوکہ ہمارے منا بھائی ہیں کا حکم تھا کہ چودھری صاحب کا انٹرویو ہنگامی بنیادوں پر کیا جائے۔

دوسری طرف روہی چینل کے مالک جہانگیر ترین اور چودھری برادران کے تعلقات اقتدار کے دنوں میں ضلع ناظم الیکشن رحیم یار خان کے دوران بگڑ چکے تھے۔ یوں کہانی ایسی تھی کہ رہے نام اللہ کا۔ پھر ایسا ہی ہوا کہ جیسے ہی اس بات کی اطلاع جہانگیر ترین اور ان کے دیگر رفقا تک پہنچی کہ روہی کے لئے چودھری پرویز الہی کا انٹرویو کرلیا گیا ہے تو معاملہ ناراضگی کی طر ف چل پڑا۔ ٹی وی چینل انتظامیہ نے پہلا کام تو یہ کیاکہ فورا ساری ریکارڈنگ حاصل کرلی اور پھر اس کو غور سے دیکھا گیا۔

لیکن ساری صورتحال کے باوجود چینل انتظامیہ نے چودھری پرویز الہی کا انٹرویو تو نہیں روکالیکن ہماری اس گستاخی کو ریکارڈ کا حصہ ضرور بنالیا۔ پھر کیاہوا؟ اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔ بہرحال چودھری پرویزالہی کے انٹرویو کرنے جانے کی بدولت لاہور کے پاس حا ضری ہوگئی تھی۔ لاہور سے یاد اللہ بچپن کی یوں ہے کہ ہمارے خالو میجر (ر) نواز ملک کا گھر لاہور میں تھا اور اماں نے جب بھی خالہ سائرہ کے پاس لاہور جانا، ہم میں سے کوئی بھائی ان کے ساتھ جاتا تھا، یوں نوے کی دہائی کے لاہور کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔

لاہور خوبصورت تھا اور پھر خالہ سائرہ بھانجوں کی آمد پر ان کو لاہور کی سیر کروانا ازحد ضروری سمجھتی تھیں۔ ان کے بعد ماموں بلال کے پاس جانے لگے جوکہ لاہور میں ڈاکٹر تھے، پھر کوٹھا پنڈ عباس سواگ جوکہ اب لندن سدھار گئے ہیں، ان کے پاس جانا لگا رہتا تھا اور عباس سواگ کمال زندہ دل تھا، خوب محفل سجتی تھی۔ یوں لاہور سے محبتوں کا سلسلہ چلتارہا۔ لیکن درمیان میں ایسا ہواکہ لاہور کے پاس غیرحاضری یوں لگنا شروع ہوگئی کہ اسلام آباد نے اپنے گھیرے میں ایسا لیاکہ نکلنے کی اجازت ہی نہ ملی۔

تقریبا آٹھ سال بعد لاہور گیا تو حیرت میں ڈوب گیا لاہور تو پتہ چلاکہ ہمارے لاہور کا تو حلیہ ہی بگڑچکا، شریف برادران نے لاہور کو ترقی کے نام پر وہ چونا لگایاکہ الامان الحفیظ۔ ڈاکٹر طاہرمہر، ورداسلیم، سپریم کورٹ بار کے سیکرٹری آفتاب احمد باجوہ سے لاہور کی ترقی کے نام کی گئی حالت کے بارے میں بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ حضور اب آپ نہیں لاہور کے اپنے شہری اس کی آلودگی اور دیگر بنیادی ایشوز پر تنگ ہیں۔ اس بار لاہور کے پاس حاضری کی ایک وجہ چیرمین ایگزیکٹو کونسل برائے قیام صوبہ جنوبی پنجاب طاہر بشیر چیمہ کے ساتھ ملاقات تھی۔

اس کے بارے میں کچھ تو آپ پچھلے کالم میں پڑھ چکے ہیں باقی ماندہ گفتگو بھی آپ کی امانت ہے۔ لیکن اس بار لاہور ہی سارے کالم میں چلیگا۔ شاہ زیب خان جوکہ ہے تو بہاولپور کا لاڈلا لیکن لاہور میں پولیس آٖفیسر ہے، اس کی محبتوں کی داستان بھی لاہور کے ساتھ جڑی ہے۔ راقم الحروف کے پاس لاہور کی ٹریفک کے دریا کو عبور کرکے پہنچا تو گلے ملتے ہی ساتھ میرا پہلا سوال یہی تھا کہ علامہ لاہور کے ساتھ کیاکردیا ہے، یوں لگتاہے پورا لاہور سٹرکوں پر تیر رہاہے اور راستہ ہے کہ ملنے کا نام ہی نہیں مل رہا ہے۔

ادھر اوپر آسمان ہے کہ وہ میٹروبس سروس کی بدولت یوں لگتاہے کہ لاہوریوں کے لئے غائب ہوچکا ہے۔ ادھر لاہوری ہیں کہ بس کھارہے ہیں اور مسلسل کھارہے ہیں او خاموش ہیں لیکن وہ محبتیں بھری محفلیں اور جگتیں اور قہقے لاہوریوں سے کہیں ناراض ہوگئے ہیں۔ ادھر آلودگی کی چادری نے لاہور کی زندگی کو مفلوج کرنے کی پوری منصوبہ بندی کی ہوئی ہے۔ شاہ زیب نے کہا بات تو آپ کی درست ہے لیکن اب ہم اور کہیں جابھی تو نہیں سکتے ہیں۔

لہور نے کہیں جانے کا نہیں چھوڑ ا ہے۔ میں نے کہا علامہ صاحب (شاہ زیب کو پیارے سے ہم دوست علامہ بولتے ہیں ) اتنا تو کرسکتے ہیں کہ پسماندہ علاقوں سے جولوگ تعلیم، صحت اور روزگار کی خاطر لاہور آرہے ہیں، لاہور کو آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ سے بچانے کے لئے ان کے لئے ادھر ہی اپنے علاقوں میں تعلیم، صحت اورروزگار کا انتظام تو کرسکتے ہیں۔ کیاضرورت تھی کہ صرف لاہور ضلع میں 26 میڈٰیکل اور ڈینٹل کالجز بنادیئے گئے ہیں۔

ادھرتھل کے سات اضلاع خوشاب، میانوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ، جھنگ اور چینوٹ میں ایک بھی میڈیکل کالج سے لے کر ایک انجئرینگ یونیورسٹی زرعی یونیورسٹی، وویمن یونیورسٹی، ٹیکنالوجی کالج، ٹیچینگ ہسپتال، ہائی کورٹ کا بنچ، تعلیمی بورڈ، ڈویثرنل ہیڈ کوارٹر، ائرپورٹ سمیت کوئی ایسی بنیادی سہولت نہیں ہے کہ جوکہ تھل کے عوام کو تخت لہور کی طرف آنے سے روک سکے، مطلب تھل کے عوام کے لئے زندگی تنگ کردی گئی ہے۔ شاہ زیب نے اتفاق کیاکہ ظاہر ی بات ہے جب ساری کچھ ہی لاہور میں ہوگا تو پھر پسماندہ علاقوں کے لوگ زندگی میں تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولتوں کے لئے لاہور کا ہی رخ کریں گے۔

ادھر راقم الحروف نے معروف صحافی عامر متین کے ایک پروگرام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ لاہور پانی کہیں نیچے چلا گیا ہے، مطلب لاہور جوکہ پنجاب کا دارالحکومت تھا اور اس نے پنجاب کے 35 اضلاع کے مسائل حل کرنے تھے وہ خود ہی مسائل کا شکار ہوکربدترین آلودگی اور آبادی کی دلدل سمیت دیگر ایشوز میں دھنستا جارہا ہے۔ راقم الحروف کے لاہور کے ساتھ رومانس کے بارے میں جاننے کے لئے آپ کو پیچھے چلنا ہوگا اور لہور کی تاریخ میں غوطے کھانے ہوں گے۔

دریائے راوی کے کنارے واقع، تاریخ میں ابتدائی آریاؤں کی پہلی قیام گاہ کے طورپر مشہور لاہور کو ایک مقبول روایت کے مطابق لاوا یا لوہ نے آباد کیا جو ایودھیا کے بادشاہ اور رامائن کے ہیرو رام کے جڑواں بیٹوں میں سے ایک تھا۔ دوسرے بیٹے کش کے بارے میں کہاجاتاہے کہ اس نے شہر کساور یا قصور کو آبادکیا۔ اس طرح لاہور کا مطلب ہوا لوہ کا قلعہ جبکہ دوسرا حصہ آور سنسکرت کے آواران سے لیا گیا ہے جس کا مطلب ہے قلعہ یا احاطہ ہے۔

اس شہر لاہور کے بارے میں پہلا تاریخی حوالہ چینی سیاح ہیون سانگ کی 630 ء میں لکھی گئی تحریروں میں ملتا ہے، بعد میں ساتویں صدی پہلے مسلمان کی آمد کے وقت لاہور میں ایک چوہان شہزادے کے زیرتصرف تھا جوکہ اجمیر خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ دوصدیوں تک لاہور کے ہندو حکمران بیرونی حملہ آور کی سخت یورشوں کی مزاحمت کرتے رہے اور ملک میں ان کی مزید پیش قدمی کو روکے رکھا۔ 1008 ء میں آخری راجپوت بادشاہ آنند پال، غزنی کے محمود کی زبردست یورش سے پسا ہوا اور اجمیر بھاگ گیا۔

ادھر 1022 ء میں محمود نے کسی مزاحمت کا سامنا کیے بغیر لاہور پر قبضہ کرلیا اور اس کو تخت وتاراج کیا۔ اس کے ساتھ ہی لاہور پر ہندو حکومت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گیا۔ 1241 ء میں چینگیز خان کے گروہ نے لاہور پر قبضہ کرکے غارت گری کی اور 1286 میں غیاث الدین بلبن کا بیٹا محمد روای کنارے مغلوں کے ساتھ لڑائی میں ہلاک ہوا۔ 1397 ء میں تیمور نے لاہور پر قبضہ کیا لیکن اس کو گزند نہ پہنچائی۔ 1542 ء میں بابر نے لاہور پر قبضہ کیا اور اس کی سپاہ نے نہ صرف لوٹ مار کی بلکہ شہر نذر آتش بھی کیا۔

وہ دہلی تو نہ پہنچا سکا اور سرہند سے پساہوکر واپس چلا گیا۔ اگلے سال بابر نے دوبارہ ہندوستان پر حملہ کیا۔ پانی پت کی تاریخی جنگ 1526 ء میں ابراہیم لودھی کو شکت دے کر دہلی پر قبضہ کرلیا اور مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔ بابر کے وارثوں، ہمایوں، اکبر، جہانگیر، شاہ جہاں اور اورنگزیب کے ادوار کو لاہور کی تاریخ کا سنہرا دور کہاجاسکتا ہے۔ انہی ادوار میں شہر نیم گمنامی س نکل کر نمایاں ہوا۔ لاہور تاریخی عمارتوں اور باغوں کا شہر بنا۔

یہ لاہور میں ہی ہواکہ جب ہمایوں شیر شاہ کی فاتح افواج کے آگے بھاگتاہوا، پندرہ سالہ حمیدہ بیگم سے ملا اور اس سے شادی کی جس نے اکبر۔ مغل اعظم اکبر کو جنم دیا۔ اکبر نے 1584 ء سے 1598 تک لاہورکو اپنا مرکز سلطنت بنائے رکھا۔ اس عرصہ کے دوران سلطنت کو کشمیر تک وسیع کرلیا اور لاہور کو صوبائی مرکز سے بلند کرکے مغل سلطنت کا دارالحکومت بنایا۔ اس کے بعد آگرہ اور دہلی کے ساتھ ساتھ لاہور بھی شاہی دربار کے لئے مخصوص ہو گیا۔

اکبر نے شہر کے گرد مناسب اونچائی تک اینٹوں کی دیوار بنوادی اور ایک محل کی بنیادی رکھی جسے بعد ازان اس کے جانشنیوں نے وسعت دی۔ شہر لاہور اپنے باغوں، مسجدوں اور شہ نشینوں کے ساتھ شاہی قیام گاہ بن گیا۔ لاہور شاہی معاشقوں سے بھی جڑا ہوا ہے، یہیں پر شہزادہ شلیم جوکہ جہانگیر کے نام سے مشہورہوا، حسین وجمیل لیکن بدقسمت انارکلی کی محبت میں گرفتار ہوا۔ نادرہ بیگم یا شرف النساء کو انارکلی کا لقب اس کے غٰیر معمولی حسن کی وجہ سے دیا گیا۔

وہ اکبر کے حرم کی ہر دلعزیز مکین تھی۔ اکبر کے حکم سے دفن کردیا گیا۔ کیوں کہ اکبر نے اپنے شیش محل میں اسے اور اپنے بیٹے کو مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتے دیکھ لیا تھا۔ لاہور ہی میں شہزادہ سلیم نے خوبروایرانی لڑکی مہرالنسا کوپہلی دفعہ دیکھا جس کی شادی اکبر کے ایک جرنیل سے ہوچکی تھی۔ ان کی داستان محبت اتنی ہی رومان پرور تھی جس قدرہوسکتی ہے۔ مہرالنساء جوہندوستان کی رنگارنگ تاریخ کا سب سے تابناک کردارتھی، ملکہ نورجہاں کے نام سے جانی جاتی ہے۔

جہانگیر اور نورجہاں کے مقبرہ کاشمار شہر کے بڑے تعمیراتی شاہکاروں میں ہوتا ہے۔ اس مقبرے کے چاروں کونوں پر عظیم الشان اور بلند وبالا مینار ہیں جن کے بالائی حصوں پر سنگ مرمر کے خوبصورت گنبد بنے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک وسیع وعریض باغ ہے جوپہلے دلکشا باغ کہلاتا تھا۔ اور اس کی محبوب شہزادی کا پسندیدہ باغ تھا۔ مغلوں نے اپنی آخری آرام گاہوں کے لئے ہمیشہ کشادہ اور پرسکوں ماحول کو پسند کیا۔ ان میں سے کسی کی قبر بھی شہر کی حدود کے اندر نہیں ملتی۔

مغلیہ خاندان کا عظیم فرماں روا شاہ جہاں لاہور میں پیداہوا اور اس شہر کا حاکم بنا۔ اس نے شہر کی مشرقی سمت شالیمار باغ بنوایا جس کا شمار دنیا کے عظیم ترین باغان میں ہوتا ہے۔ شہر لاہور کو دریائے راوی کی طیغانی سے بچانے کے لئے اورنگزیب نے 1662 ء میں راوی کنارے کے ساتھ ایک بھائی بند بنوایا جس بند عالم گیری کہتے ہیں اور جس کی وجہ سے شہر دریا کے پانی کی وجہ س آنیوالی تباہی سے محفوظ ہو گیا۔ لاہور میں دو مشہور مسجدیں بھی ہیں، ایک مسجد وزیرخان جوکہ 1634 میں تعیمر ہوئی اور دوسری سنہری مسجد جس کی تعمیر 1753 میں ہوئی، دونوں دہلی دروازے کے قریب تھیں۔

اورنگزیب کی وفات کے بعد مغل سلطنت کا زوال شروع ہو گیا اور اٹھارویں صدی کے دوران لاہور یا تو مغل گورنروں کے کمزور تصرف میں رہایاپھر سکھوں اور افغان سرداروں کے ماتحت رہا۔ یہی دور تھا جب لاہور ایک دفعہ پھر حملہ آوروں اور غارت گروں کے ستم کا نشانہ بنا۔ سب سے پہلے ایرانی جنگجو نادر شاہ آیا اور 1738 ء میں تخت طاوس کو تہران لے گیا اور لہور لوٹ مار سے محفوظ رہاکیونکہ شہر کے گورنر نے ہتھیار ڈال دیے اور فاتح کو بیس لاکھ روپے اور بڑی تعداد میں ہاتھی خراج کے طور پر دیے۔

1756 مٰیں پہلی مرتبہ لاہور سکھوں کے زیر نگین آیا لیکن جلد ہی انہوں نے مرہٹوں کے لئے راستہ ہموار کردیاجنہیں 1761 ء میں پانی پانی پت کے میدان میں احمد شاہ نے کچل دیا اور پنجا ب باہر نکال کیا۔ 1799 میں رنجیت سنگھ لاہور کا مالک اور پنجاب کا حکمران بنا۔ اپنے چالیس سالہ دور حکمرانی میں اس نے اپنی سلطنت کو سلسلہ کوہ سلیمان سے ستلج تک اور کشمیر سے ملتان اور اس سے آگے تک پھیلالیا۔ رنجیت سنگھ کی موت کے بعد اس کے ورثا خاندانی اور ریاستی جھگڑوں میں الجھ گئے اور ملک پر حکومت کے لئے نا اہل ثابت ہوئے۔

1846 ء میں برطانوی لاہور پر قابض ہوئے اور صدر مقام اور حکومتی نظم ونسق کے جدید نظام کے مرکز کے طورپر لاہور کی عظمت رفتہ اور وفاق بحال ہوا۔ سکھ دور میں حکومت میں معمولی نوعیت کے تعیمراتی اضافے ہوئے۔ سب سے قابل ذکر عمارت سنگ مرمر کا وہ محل ہے جو رنجیت سنگھ نے حضوری باغ کے وسط مٰیں بنوایا جو بعد میں سرائے سے سیر گاہ میں تبدیل ہو گیا۔ سکھوں کی ایک اور نمایاں یادگار رنجیت سنگھ کی سمادہ تھی۔ یہ ہندو اور مسلم طرز تعیمر کا دلکش امتزاج تھی۔ اس دور میں بڑی تعداد میں مندر تعیمر ہوئے جنہیں لاہور میں شوالا کہاجاتا ہے۔ صدی کی کروٹ کے ساتھ ہی برطانوی راج کے بے مثل امن، خوش اقبالی اور بہبودی کے دور کا آغاز ہوا۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).