محبت کی نماز میں۔ امامت!


کل رات میں نے بہت سوچا، کہ ہمیں اپنے اپنے راستے پر چلتے رہنا چاہیے۔ مہک اداسی سے بولی ”اس لیے میں اب کبھی آپ کو مجبور نہیں کروں گی۔ کبھی بھی نہیں۔ “ وہ ایسے بول رہی تھی، کہ جیسے لمحہ لمحہ موت کے قریب ہورہی ہو۔ مجھے تم ایسے ہی پسندھو۔ بس ایسے ہی رہنا۔ میرے ساتھ۔ عمربھر۔ کچھ نہ کرو، کچھ نہ کہو۔ لیکن میرے پاس رہو۔ میرے سامنے رہو۔ میرے ہوکررہو۔ کچھ نہیں کیا، کچھ نہیں دیکھا، کچھ نہیں محسوس کیا۔ سب قبول ہے۔

مجھے تم ایسے ہی، اسی طرح قبول ہو۔ بس میرے ساتھ رہو۔ ایسے ہی۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا ؟ کہ یہ راستہ اسی طرح، دھندمیں سے ہوتا ہوا، پل صراط سے گزر جائے۔ یونہی دھندلاتاہوا۔ ٹھنڈا، سردی میں۔ ادھراُدھر دیکھے، سوچے بغیر ! نفع نقصان کے حساب کے بغیر ! تاکہ ہم ہمیشہ کے لیے ایسے سفر میں چلے جائیں۔ امرہوجائیں۔ ایسے سفر پر، جہاں سٹرک ختم نہ ہوتی ہو۔ کوئی موڑنہ آتاہو۔ کوئی مڑکے نہ دیکھتا ہو ! جہاں دھندکی تاریکی سے تمام آلائشیں چھپ جائیں، صرف سوچ رہ جائے، خوبصورتی کی سوچ، محبت کی سوچ، ایک ہو جانے کی سوچ، بغیرمنزل کے لالچ اور سوچ کے۔ مسلسل سفر میں۔ ساتھ ساتھ ہمیشہ کے لیے ہمیشہ سے ہمیشہ تک! کیا ایسا نہیں ہوسکتا؟

وہ میرے قریب ہوتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ اس کا جسم اس کی سوچ کی طرح میرے ساتھ چمٹا ہوا محسوس ہورہاتھا۔ اور میں اس کرنٹ اور کچھ ہو جانے کے خوف سے۔ دائیں پہلو کھسک رہا تھا ! دورہورہا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی دور ہو رہاتھا۔ دھند کی ”مہک“ سے خوفزدہ، جہاں پانی کی بوندیں بالوں میں اٹک رہی تھیں اور سانسوں کی حرارت سے منہ کے اندراور باہر بھاپ۔ گرمی۔ شدید گرمی۔ شدید سردی میں شدیدگرمی محسوس ہورہی تھی۔ شدید گرمی !

اُس نے مجھے سمجھانے والے انداز میں کہا ”محبت کی نماز میں امامت کسی ایک کو ہی سونپ دینی چاہیے، یہاں وہاں تاکنے سے نیت ٹوٹ جاتی ہے۔ “ میں نے کہا کہ ”محبت کی نماز میں امامت نہیں ہوتی۔ صرف نماز ہوتی ہے، عبادت ہوتی ہے محبوب کی۔ اور اس عبادت میں ادھراُدھر دیکھنے کی نہ ضرورت ہوتی ہے نہ فرصت۔ اگرمحبوب کی عبادت میں دھیان ادھراُدھر بھٹک جائے تو سمجھ لیں ابھی محبت میں پختگی نہیں آئی۔ محبت دوئی سے بیگانہ کردیتی ہے اور یکسوئی سکھاتی ہے۔

اس عبادت میں محبوب سے دور رہ کر بھی، نظروں سے اوجھل، زمان اور مکان میں صدیوں کے فاصلوں کے باوجود، گفتگو ہوتی ہے بلکہ اکثربنا کچھ کہے سنے اور بغیر لفظوں کے گفتگو ہوتی ہے۔ اس وصل کا وقت بہت طویل مگر جلد گزرجاتاہے۔ ہوش نہیں مدہوش، عبادت ہوتی ہے۔ پیکرورخسار سے بہت آگے کی عبادت ہوتی ہے۔ نہ ثنا کے الفاظ اداکرنے کی ضرورت اور نہ حمد اورشکرکے ترانے، نہ ماتھا ٹیکنے کی ضرورت، نہ گھٹنوں کے بل جھکنے کی ضرورت۔ نہ پاکی کا احساس اورنہ وضو اور طہارت کا خیال ! محبت میں عبادت رُوبروہوتی ہے۔ اس میں خیال کے ادھراُدھر بکھرنے یا ادھرادُھردیکھنے سے نیت نہیں ٹوٹتی بلکہ نمازفسق ہوجاتی ہے! سومحبت عبادت اورعبادت محبت ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل اور ناممکن ہیں۔ محبت اور عبادت!

گرمیوں کی اس صبح میں جب اوس قطروں کے ساتھ پھولوں کی پنکھڑیاں اور پتوں کے ابدان ابھی بوجھل تھے اور آسمان کے ایک کونے سے سورج دیوتا ابھی درشن کروانے کا سوچ رہے تھے۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے مشرق کی سمت سے غریب کی رضائی کی طرح پتلی اور کہیں کہیں سے خالی ”بدلی“ کو ہواؤں کے رُخ تیرتے ہوئے اور کسی پکے اور پرانے کہنہ مشق عاشق کی طرح محبوب ِ بے پرواکے اشارہ پر ڈولتے اور ادھر اُدھر جھولتے ہوئے دیکھا اور اپنے طورپر لہجے میں پوری رومانوی کیفیت طاری کرکے کہا ”کیاخیال ہے؟ آج بارش ہوگی! “ اس نے اپنی آنکھیں سکیڑیں، دورخلا کے پار کچھ ڈھونڈنے اور دیکھنے کی کوشش کی۔ جیسے کسی کنیکشن ، وائر یا غیرمرئی رابطہ اورلا سلکی واسطہ تلاش کرنے کی کوشش کررہی ہو اورپھر ایک لمبی سانس لے کر بڑے اضطراب سے بڑے قطعی اورحتمی لہجے میں بولی ”نہیں آج بارش نہیں ہوگی ! ۔ “

میں نے ابھی بات کو اچکنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا۔ میراخیال تھا کہ اس کا جدید ماڈل آئی فون اور ایکیو ویدر توسیٹلائٹ سے منسلک ہے وہ جھوٹ نہیں بول سکتا۔ یہ تو ہر لمحہ سیٹلائٹ کے ذریعہ تازہ ترین فورکاسٹ دیتا ہے۔ مگروہ میرے بولنے سے پہلے بول پڑی۔

”بالکل نہیں ہوگی ! بلکہ آج طوفان آئے گا۔ سرخ اور لال طوفان، آندھی۔ فصلیں تباہ ہوں گی۔ چڑیاں اور“ بوٹ ”درختوں سے گر کر“ پھانڈے ”کے زور سے نڈھال ہوکر مر جائیں گے یا بلیوں کتوں کو ہوش آنے کے بعدا ور طوفان تھم جانے کے بعد ان کی غذا بن جائیں گے۔

”اب کے موسلا دھار بارش نہیں صرف طوفان آئے گا۔ “
”محبت کے بازار میں آج بہت مندہ ہے، اس لیے طوفان آئے گا۔ سب کچھ اُڑا کر لے جائے گا۔ مجھے بھی اور تمھیں بھی۔ “

اس کی کیفیت ایسی تھی، جیسے وہ خودکلامی کررہی تھی۔ بڑبڑارہی تھی۔ مایوسی اور پریشانی میں، ہارنے کے بعد، سب کچھ، کھو جانے کے بعد، بے بسی سے خود کو کوس رہی تھی۔ اور پھر اس کی آنکھوں سے دو موتی لپکے۔ میں نے پوری کوشش کی۔ کہ ان کو جذب ہونے سے پہلے اُچک لوں، چوم لوں، اپنے ہونٹوں سے پی لوں۔ مگرایک بار پھر رکھ رکھاؤ سامنے آگیا۔ اندرکا ”زاہد“ ہار گیا اور باہر کا ”زاہد“ جیت گیا۔ چاہتے ہوئے بھی میں ایسے جیسے میرے ہاتھ پاؤں زبان سب ساکت ہوچکا تھے۔ پتھربن چکا تھا۔ میں صم ’‘ بکم ’‘ ! اُسے دیکھتا رہا۔

پھر کیا ہوا کہ نہ جانے ”بدلی کب بادل“ میں بدل گئی۔ آنِ واحد میں کالے سیاہ بادل، ایسے مختلف سمتوں سے جمع ہونا شروع ہوئے، جیسے جنّات کسی سامری کی آواز پر آتے ہیں۔ غول درغول، قطاردرقطار۔ پہلے عجیب سی لالی مغرب کی طرف سے سورج کے منہ پر نقاب زن ہوکر سورج کو مزیدسورج زدہ کرنے لگی۔ لال لال ڈورے بالکل ایسے پھرنے لگے جیسے آشوب ِچشم کا عروج ہو۔ اور آندھی کا احساس اور ریت کے ذروں کاخیال، بنا دیکھے اور ابھی کوسوں دور ہونے کے باوجود، جیسے آنکھوں میں کوئی چیز ”رڑک“ رہی ہو۔

پھر لالی اور سرخی کے آگے آگے، نقارچی کے طور پر کچھ کوّے بوکھلائے ہوئے، کائیں کائیں کرتے ہوئے، اس طرح ادھر ادھر کنی کھا رہے تھے، جیسے اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھے ہو ں یا خوف کی بدولت راستہ، زبان، اڑان اور کلام بھی بھول گئے ہوں۔ وہ ایسے خبردار کررہے تھے، جیسے کہہ رہے ہوں، بھاگ جاؤ۔ دور نکل جاؤ، اس دیس سے کہیں بہت دور ! بہت آگے۔ آندھی اور ہوا سے بہت دور ! کوّے اور ابّے کی ”صلاح“ کبھی بھی غلط نہیں ہوتی۔ بس انسان کو سمجھنے میں تاخیر ہوجاتی ہے !

ہر دو کی دی ہوئی ”متّ“ بندے کی عقل میں تاخیر سے پڑتی ہے۔ سو اس کاں کاں، کائیں کائیں اور اس کے اضطراب و ہیجان کے بعد، ہواکے دوش پر تیرتے ہوئے کچھ لاوارث اخبار کے کاغذ اور چند ایک پلاسٹک کے تھیلے، ادھراُدھرجھوم رہے تھے۔ جو شایدکچرہ چننے والے اس معصوم بچے کی نظر سے بچ گئے ہوں گے، جو شدید سردی میں، پھٹی ہوئی قمیص میں، ننگے پاؤں، اس یخ بستہ سردی میں، گندگی کے ڈھیر سے کھانے کے لیے خشک روٹی کے ٹکڑے اور کمانے کے لیے اخبار، کاغذ، کانچ اور پلاسٹک ڈھونڈتا ہے۔

اور ہر غلیظ ترین چیز کو بھی اسی طرح ہاتھ لگاتا ہے اور ناک کے قریب لے جاکر سونگھتا ہے، جیسے شرفا کے بچے پیرس کے ڈالرزدہ پرفیوم کو۔ یہ کاغذ ہوا کے دوش پر ”واورولے“ کے اندر گھومتے ہوئے ”بُلے“ لگ جاتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر بچے قہقہے لگاتے، ”ویہڑے“ میں آجاتے ہیں، جوان بے چینی سے ادھر اھرکچھ تلاش کرتے ہیں اور خالی خولی نظروں سے واپس لوٹ کر پنڈے کو اپنے ہی ہاتھوں سے زورکا جپھا مار لیتے ہیں۔ اور جوانی کی دہلیز پر بیٹھی ہوئی منہ زور جوانیاں اس شدید سردی اور یخ بستہ ہوا میں، ماحول میں حرارت، آنکھوں میں شرارت اور جسم و روح میں عجیب سی بغاوت لیے ہوئے، ہوا کے ”بُلے“ پر سوارہوکر، زمان اورمکان کی قید سے آزادہوکر، کہیں کوہ قاف میں جاکر، کسی کے ساتھ چمٹ کر، چوٹیوں کی برف کو اپنے سانس کی حرارت سے پگھلانا چاہتی ہیں۔

اور اس ساری ہنسی، خوشی، قہقہے، آگ، اینٹھن، کسک، اور لپک سے پرے، بڑی بوڑھیاں اور بابے، جن کی نظریں کمزور، ٹانگیں بغیربیساکھیوں کے خود بیساکھیاں لگتی ہیں۔ چلتے ہوئے گھٹنوں سے ایسے آوازآتی ہے، جیسے شدید سردی میں دانت بج رہے ہوں یا جن کا ہاتھ اور پاؤں کی حرکت پر اب کنٹرول ختم ہوچکا ہوتاہے اورلذتیت والی حس تمام دوائیوں، کشتوں، معجونوں، کالی گولیوں، رنگ برنگے تیلوں اور طلّوں کے مسلسل استعمال کے باجود، مختلف ایسی بیماریوں کے بہانوں سے یخنی، دیسی چوچے کا گوشت، پُٹھ کی بوٹیاں، دیسی گھی کا سالن، دودھ جلیبیاں، میوے، حریرے اورمقوی مربہ جات کھائے جاتے ہیں، جن کی دوردور تک کہیں ضرورت نہیں ہوتی۔

یہ بابے، بی بیاں کانوں کو ہاتھ لگاتی، توبہ توبہ کرتی، گھروں کی کھڑکیاں بند، دروازوں کے کواڑبند اور ان کی زنجیریں کھینچ کر اندر اینٹیں اس لیے رکھ لیتی ہیں، کہ ہوا کے زور پر دروازہ کھل نہ جائے۔ اور کھڑکیوں دروازوں کے سوراخوں، درزوں میں پرانے کپڑے، بنیانیں اورتہبند کے ٹکڑوں کی لیریں ٹھونس دی جاتی ہیں۔ تاکہ پانی کو گھر کے اندر آنے سے روکا جائے۔ اور ساتھ ساتھ بچوں بالکوں کو کھینچ کھینچ کر اندرکرتی ہیں کہ ”اللہ تو ں مافی منگو۔ کِتے بہت وڈا ظلم ہویا اے۔ کو ئی قہرہویا اے !

میں پہلے ہی کچھ ”مہک“ کی مہک اور فلسفے سے خوفزدہ تھا دوسرامیرے اندرکا ”زاہد“ مجھے دھکے مار کرباہر والے ”زاہد“ کواپنے راستے سے ہٹانے کے تمام حربے کررہا تھا۔ میر ی اندرونی لڑائی، میرے بیرونی خول پر اثر انداز ہورہی تھی۔ میرے اندرکا کمینہ پن، شودا، چھچھورا، ندیدہ، غلیظ آدمی، باربار میرے ہاتھوں سے نکل نکل جارہاتھا۔ میر ے نوسوراخواں کو پھاڑتا ہوا کوئی واہیات حرکت کرنا چاہتاتھا۔ میرے باہروالے رکھ کھاؤوالے شخص کو لٹاکر، اس پر بیٹھ کر اس کی چھترول کرکے، اس کا سارا تصنع اوربناوٹ، اس کے لاتعدادمساموں سے نکال کر، باہر پھینک کر اس کو اندرباہر سے ایک کرنا چاہتاتھا !

کیونکہ یہ سرخ آندھی بہت منہ زور تھی۔ میں اس کی سرخی اور ہوا کی رفتار میں اپنے آپ کو بے بس محسوس کررہا تھا۔ شاید میں اس ظلم اور قہر کا موجب تھا۔ سرخ اور لال طوفان۔ ہیجان۔ اندر اور باہر کا ہیجان !

کتاب “حاصل لا حاصل” سے اقتباس۔
شائع کردہ سنگ میل۔

لیاقت علی ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

لیاقت علی ملک

لیاقت علی ملک ۔۔۔ داروغہ ہے۔ خود ہی عدالت لگاتا ہے، خود ہی فیصلہ سناتا ہے اور معاف نہیں کرتا۔۔۔ بس ایک دبدھا ہے۔۔۔وہ سزا بھی خود ہی کاٹتا ہے ۔۔ ۔۔کیونکہ یہ عدالت۔۔۔ اس کے اپنے اندر ہر وقت لگی رہتی ہے۔۔۔۔

liaqat-ali-malik has 12 posts and counting.See all posts by liaqat-ali-malik