جمہوریت کے منہ میں دہی کب جمتا ہے؟


“میری زندگی میں آپ کو قناعت اور درویشی نظر آئے گی۔ میرے والدین کی دعاؤں کے طفیل اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اپنی رحمتوں کی بارش کی اور اعلیٰ مناسب عطا کیے۔ مجھے اپنی صلاحتیوں سے زیادہ اس کی نگاہ کرم پر کامل بھروسہ ہے۔ ہر مشکل وقت میں اس نے دستگیری کی اور ہر آزمائش میں سرخرو کیا۔

آپ نے دیکھا ہو گا کہ میرے گزشتہ چار پانچ ماہ کس عذاب میں گزرے ہیں۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں سب سے ناکام چیف آف آرمی سٹاف ہوں اور میرا نام تاریخ میں عجب عجب عنوانات سے لکھا جائے گا لیکن میرے اللہ نے میری رہبری کی۔ میرے قصور معاف کر دیے اور آن کی آن میں صورت حال بدل کے رکھ دی۔ مجھے یقین تھا کہ پاکستانی قوم فوج کی مجبوریاں سمجھ لے گی اور اس کی برہمی خوشگوار ردعمل میں بدل جائے گی اور ایسا ہی ہوا۔ اللہ نے مجھ سے وہ کام لے لیا جو یقیناً ایک قابل فخر کارنامے کی حثیت سے یاد رکھا جائے گا۔

میرا دوسرا مشن اس سے بھی زیادہ اہم ہے منصفانہ اور آزدانہ انتخابات کا انعقاد اور پُرامن انتقال اقتدار، میں تو جمہوریت پر غیر متزلزل یقین رکھتا ہوں، فوجی حکومت انتہائی ناگزیز مرحلہ ہے، اسے زندگی کا معمول نہیں بنایا جا سکتا۔ ہم اقتدار پر قابض رہنے نہیں، اقتدار منتقل کرنے آئے ہیں۔ عام انتخابات انشاءاللہ آٹھ اکتوبر کو ہوں گے۔ خدا اور پوری قوم کے ساتھ ایک عہد کیا ہوا ہے اور اسے پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔ انشاءاللہ یہ دونوں مرحلے بخوبی طے ہوں گے اور مجھے عین الیقین حاصل ہے ” ۔

یہ الفاظ سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاءالحق نے الطاف حسن قریشی کو دوران انٹرویو کہے جو انھوں نے اپنی کتاب “ملاقاتیں کیا کیا “میں رقمطراز کیے، جمہوریت پر غیر متزلزل یقین ہر سپہ سالار یہ یقین دہانی کیوں کرانا پڑتی ہے؟

جمہوریت پر غیر متزلزل یقین جنرل مشرف کا بھی تھا۔ پھر انھوں نے اس پر شب خون مار کر اپنے ہی کیے ہوئے وعدے کو بالکل اسی طرح توڑا جس طرح جنرل ضیاء نے آٹھ اکتوبر کو انتخابات کروانے کا اللہ اور عوام سے وعدہ کیا تھا۔ آٹھ اکتوبر آٹھ مرتبہ آیا مگر انتخابات نہیں ہوئے ۔

ڈان لیکس کے حوالے سے نواز شریف اور فوج میں تناؤ پیدا ہوا۔ جمہوری ممالک میں فوج حکومت کے تابع ہوتی ہے۔ آئینی لحاظ سے نواز شریف کا موقف درست تھا۔ مقتدر قوتیں چاہتی تھی کہ نواز شریف ان کے تابع رہیں اور جب نواز شریف کو احساس ہوا کہ یہ تو نوکری کرنے والی بات ہوئی تو انھوں نے سویلین بالادستی کا نعرہ لگا کر اپنی زندگی مشکلات میں ڈال دی۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ جو کہتے تھے کہ نواز شریف شہزادہ ہے اور وہ جیل کی سختیاں برداشت نہیں کر سکتا۔ ستر سالہ ضیعف بزرگ بہادری سے جیل کاٹ رہا ہے مگر دوسری طرف شبہاز شریف پنڈی والوں سے محبت کی پینگیں بڑھا رہےہیں

اس وقت ملک میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کا معاملہ زیربحث ہے۔ سویلین حکومت کے ہوتے ہوئے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی ضرورت باقی نہیں۔ ویسے بھی ہمارے ملک کی عدلیہ اتنی طاقتور ہو گئی ہے کہ وہ بڑے سے بڑے پھنے خان پر بھی ہاتھ ڈال دیتی ہے۔ دوسرا مقتدر حلقے بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ الحمدلله ملک میں دہشگردی کا ناسور بھی ختم ہو گیا تو فوجی عدالتوں کا باقی رہنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر جب کہہ رہے تھے کہ بیرونی امداد سپہ سالار کو مل رہی ہے تو ان کا چہرہ اس بات کی چغلی کھا رہا تھا کہ وہ اسیٹیبلشمنٹ سے تعلقات بڑھانے کے خواہاں ہیں۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ مقتدر حلقوں سے تعلقات بہتر بنانے کی تمنا رکھتے ہیں تو کیا انھیں میاں نواز شریف کی تائید حاصل ہے یا ان سے بالا بالا کام ہو رہا ہے۔ اگر تائید حاصل ہے تو پھر میاں نواز شریف کا بیانیہ “ووٹ کو عزت دو” کہاں گیا؟ انھیں پرآسائش زندگی مشکلات میں ڈالنے کا کیا ثمر ملا؟

سویلین بالادستی کے لیے ضروری ہے کہ میاں شہباز شریف اپنے بھائی کا ساتھ دیں۔ سویلین بالادستی کی جنگ، ممکن ہے، طویل ہو جائے لیکن اگر شریف بردران ڈٹ گئے تو پھر یہ قائم ہو کر رہے گی۔ پھر کبھی کسی کو ” جمہوریت پر غیر متزلزل یقین” کا اعلام کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی

چلتے چلتے آپ سے یہ بھی شیئر کرتا جاؤں کہ جس 18 ویں ترمیم کریڈیٹ پیپلزپارٹی لیتی ہے، اس میں بہت سے قانونی سقم ہیں۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی کی وزارت قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی کو کور کرنے گیا۔ ایجینڈا میں ٹاپ پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے پر حکومتی بل تھا۔ رانا ثناءاللہ نے موقف اپنایا کہ ججز کی تقرری کا طریقہ کار میرٹ پر نہیں ہوتا۔ جوڈشینل کمیشن ججز کی تقرری کر کے پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیتی ہے اگر چودہ دن کے اندر کمیٹی منظوری نہ دے تو وہ تقرریاں خود بخود ہو جاتی ہیں گویا دوسرے الفاظ میں پارلیمانی کمیٹی ربڑ سٹمپ ہے۔ اس پر وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ 18 ویں ترمیم آپ لوگوں نے کی تھی، آپ پارلیمانی کمیٹی کو بااختیار بناتے۔ اس پر وہاں بیٹھے اپوزیشن ممبران اسمبلی کے منہ میں دہی جم گیا۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui