منگو اور تبدیلی کا خواب


سعادت حسن منٹو صاحب نے ”نیا قانون“ کے نام سے ایک کہانی لکھی تھی۔ جس میں تقسیمِ ہند سے پہلے برِصغیر میں نافذ ہونے والے 1935 گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کو موضوع بنایا گیا تھا۔ یہ قانون منظور تو اگست 1935 میں ہو گیا تھا مگر اس کا اطلاق یکم اپریل 1937 کو کیا گیا۔ منٹو صاحب کی یہ کہانی منگو نامی ایک تانگے والے کے گرِد گھومتی ہے۔ جو کہ ہوتا تو ان پڑھ ہے مگر اس کو حالاتِ حاضرہ سے کافی دلچسپی ہوتی ہے۔ اس لیے وہ اپنے ساتھ سفر کرنے والے لوگوں کی آپس میں کی گئی باتیں سنتا رہتا یے۔ اور پھر جا کر اپنے دوستوں کو بتاتا رہتا ہے۔ ایک دن دورانِ سفر وہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے نفاذ کے بارے میں سنتا ہے۔ زیادہ باتیں تو اس کے پلّے نہیں پڑتیں بس اتنی سمجھ آتی ہے کہ کوئی نیا قانون یکم اپریل 1937 کو نافذ یونے والا ہے جس کے بعد سب کچھ بدل جائے گا۔

منگو کو لگتا ہے کہ جس دن یہ نیا قانون نافذ ہوگاآزادی اور تبدیلی کا ایک نیا سورج طلوع ہو گا۔ انگریزوں کی حکومت ختم ہو جائے گی اور ہندوستان میں رہنے والے عام لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب آجائے گا۔ اس لیے وہ بے چینی سے یکم اپریل کے دن کا انتظار کرنے لگتا ہے۔ آخر کار وہ دن آتا ہے، خوشی سے سرشار منگو اپنے تانگے پر اس امید پر شہر کی طرف نکلتا ہے کہ سب کچھ بدل چکا ہو گا مگر سب ویسا دیکھ کر مایوس ہو جاتا ہے اور اسی مایوسی کے عالم میں ایک انگریز سپاہی سے لڑ پڑتا ہے اور جیل پہنچ جاتا ہے۔ جہاں پر اس کو احساس ہوتا ہے کہ تبدیلی کا جو خواب اس نے دیکھا تھا وہ غلط تھا۔

تبدیلی کا اس طرح کا ہی ایک خواب یہاں پر کچھ لوگوں نے دیکھا تھا۔ جن کو منگو کی طرح یہ لگتا تھا کہ جب یہاں پر عمران خان صاحب اقتدار میں آئیں گے تو انقلاب برپا ہو جائے گا اور ایک نیا پاکستان بنے گا۔ کیونکہ ان کو یہ بتایا گیا تھا کہ خان صاحب سے پہلے یہاں پرجتنے بھی لوگ اقتدار میں رہے، انھوں نے بیدردی سے اس ملک کے عوام پر ظلم کیے اور ان کا پیسہ لوٹا اور ملک کے تمام اداروں کو تباہ کر دیا۔ تو ان کو لگتا تھا کہ جب عمران خان صاحب اقتدار میں آئیں گے تو ان سب کا احتساب کر کے ان کو کڑی سزائیں دی جائیں گی۔

سارے ادارے ٹھیک کر دیے جائیں گے۔ ملک کے سارے قرضے اتار دیے جائیں گے۔ کوئی بھی غیر ملکی دورہ نہیں کیا جائے گا۔ کسی بھی ملک سے کوئی بھی امداد نہیں لی جائے گی۔ پولیس کا نظام بدل دیا جائے گا۔ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ معیشت کو ٹھیک کر دیا جائے گا۔ طاقتوروں اور کمزوروں کے لیے ایک ہی قانون ہو گا۔ انصاف سب کے لیے ہو گا۔

آج عمران خان صاحب کو اقتدار میں آئے ہوئے پانچ ماہ ہو گئے ہیں۔ اس پورے عرصہ میں خان صاحب نے وہی سارے کام کیے جو کرنے کی وجہ سے وہ اور ان کے سپورٹرز اپنے سے پہلے حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ مثلاً جب بھی پچھلے حکمرانوں نے دوسرے ملکوں کے دورے کیے اور انھوں نے ان ملکوں سے امداد لی تو ان کو برا بھلا کہا گیا۔ مگر پانچ ماہ کے اس قلیل عرصہ میں خان صاحب نے نا صرف چائنہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی، ملائیشیا کے دورے کیے بلکہ ان سب ممالک سے امداد بھی لی۔

آئی ایم ایف سے امداد لینے کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا مگر اب خود اس کے پاس گئے۔ احتساب کی اگر بات کی جائے تو خان صاحب کی حکومت بھی اپنے سے پہلے والی حکومتوں کی ہی ڈگر پر چل رہی ہے۔ جس طرح ان حکومتوں میں نیب کو احتساب کے نام پر سیاسی انتقام کے طور پر استعمال کیا گیا بالکل اسی طرح اب بھی نیب کو صرف اپوزیشن جماعتوں کے لوگوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور حکومت کے لوگوں کے خلاف کوئی ایکشن نہ لینے سے احتساب کا عمل جانبدار ہو گیا ہے۔

اسی طرح اگر معیشت کی بات کریں تو جو عمران خان صاحب گزشتہ حکومتوں پر پٹرول، گیس، بجلی کی قیمتیں بڑھانے اور نئے ٹیکس لگانے پر تنقید کرتے تھے۔ ان کی ہی حکومت نے ان سب کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔ اور اسی ماہ میں ایک منی بجٹ لایا جا رہا ہے۔ جس میں نئے ٹیکس لگائے جائیں گے اور بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں مزید بڑھائی جائیں گی۔ ڈالر کو مہنگا کرنے اور معیشت کی باقی ساری پالیسیوں کو ان کی حکومت کے سابقہ معاشی ترجمان ڈاکٹر فرخ سلیم غلط کہہ چکے ہیں۔

وہی بیرونی قرضوں اور آئی ایم ایف والی اسحاق ڈار صاحب والی پالیسی پر اسد عمر صاحب عمل پیرا ہیں۔ وی آئی پی کلچر کی اگر بات کی جائے تو اب بھی وہی پروٹوکول ہیں، طاقتور لوگوں کے لیے اب بھی اور قانون ہے اور عام آدمی کے لیے الگ۔ اعظم سواتی اور ڈی پی او پاکپتن کے واقعات اس کی مثالیں ہیں۔ پولیس میں اب بھی ویسے ہی اپنی مرضی سے سیاسی بھرتیاں کی جاتی ہیں جیسے گزشتہ حکومتوں میں کی جاتی تھیں۔

اس سب کو دیکھ کر عمران خان صاحب کے کئی چاہنے والے منگو تانگے والے کی طرح بد دل ہو گئے ہیں اور ان کے ارمان بھی منگو کے ارمانوں کی طرح خاک میں مل گئے ہیں کیونکہ جس نئے پاکستان کا خواب انھوں نے اپنی آنکھوں میں سجایا تھاوہ نیا پاکستان بن ہی نہیں سکا۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے کہ خان صاحب کے چاہنے والے بھی منگو کی طرح جذباتی تھے اور منگو کی طرح ان کا بھی تاریخ کا مطالعہ کم تھا۔ اس لیے ان کو اس بات کا ادراک ہی نہیں ہوا کہ عمران خان صاحب اور ان کے ساتھی بھی ویسے ہی ہیں۔ جیسے ان سے پہلے تھے۔ اور ان کو بھی اقتدار میں لانے والے وہی لوگ ہیں جو پہلے والوں کو لے کے آئے تھے۔ مگرخان صاحب کے چاہنے والوں نے ایک ایسے انسان کو اپنا مسیحا اور لیڈر سمجھا جس میں ایسی کوئی خوبی تھی ہی نہیں۔ کیونکہ باہر بیٹھ کر سب کو گالیاں دینے اور غلط کہنے سے اور ملک چلانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ شاید خان صاحب اور ان کے چاہنے والوں کو یہ فرق اب سمجھ آگیا ہو۔ جن کو نہیں سمجھ آیا ان کی بھی تسلی بہت جلدی ہو جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).