سندھ کی دھرتی کے ابھی امتحان ہیں کیسے کیسے !


جب رضا علی عابدی نے دریائے سندھ کا لداخ سے کیٹی بندر تک کا سفر طے کیا تھا۔ اور جب وہ کیٹی بندر پہنچے تو انہیں عورتوں کا ایک قافلہ نظر آیا۔ شاید وہ بارات تھی۔ رضا صاحب نے کہا چلو آج سندھ کا حسن دیکھتے ہیں! اچانک ایک تیزرفتار گاڑی روڈ سے گزری اور گرد کا تیز طوفان ہر طرف پھیل گیا۔ آہستہ آہستہ یہ گرد ہٹی تو میں نے روڈ کے دوسرے طرف اپنی نظر گھمائی۔ عورتوں کے چہرے ناک سب مٹی سے بھر گئے تھے۔ میں نے کہا شاید سندھ کی مٹی کو یہ گوارا نہیں تھا کہ اُس کی بیٹیوں کی بے پردگی ہو۔ سنا ہے کچھ روز قبل سندھ کی سسی سراپا احتجاج تھی اُس ریاست کے سامنے جس کا تصور (پڑھا تھا کتابوں میں کبھی) ماں جیسا تھا۔

وہ ماں جس کی آغوش سب سے بڑی پناہ گاہ ہوتی ہے اپنے بچوں کے لیے۔ اور اس ریاست میں عدلیہ بھی کوئی وجود رکھتی ہے لیکن اس دن رضا علی عابدی نہیں تھے جو اس مٹی کو داد دیتے اور سندھ سے مخاطب ہوکے کہتے واہ آپ تو خوب جانتی ہو مان رکھنا اپنے بچوں کا! مگر وہاں تو کوئی اور تھے جو نہ سندھ کو جانتے ہیں نہ اس کے بچوں کو۔

سندھ کی موجودہ سیاسی صورتحال غور طلب ہے۔ ہر کوئی اپنے گھروں میں پرسکون ہے اور سندھ کی بیٹیاں کراچی پریس کلب کے باہر دھوپ اور سردی میں سرِگرداں ہیں۔ آخر وہ گھروں میں جا کر سکوں سے کیوں نہ بیٹھتیں۔ پھر سوال یہ بھی اٹھاتا ہے کہ کس گھر میں جائیں۔ وہ گھر جس میں کسی کا بھائی نہیں ہے تو کسی کا باپ نہیں ہے اور کوئی گھر بیٹے سے محروم ہے۔ تاریک راتوں میں ایک مخلوق نمودار ہوتی ہے اور اس گھر کے مرد غائب ہوجاتے ہیں۔

اگر کوئی مجرم ہے تو اس ریاست میں قوانین اور عدلیہ بھی ہے اس کے لئے قانونی راستہ ختیار کیا جائے، اس پہ کسے کو اعتراض نہیں ہوگا۔ اگر وہ سزا کا مستحق ہے تو ضرور سزا دیں۔

جب مہا بھارت ہوئی تھی تو اس وقت ایک اٌصول طے ہوا تھا کہ جہاں پر ارجن کی رتھ کو جہاں روکا جائے گا وہاں یدھ (جنگ) ہوگی۔ اس پورے دورانیہ میں صرف ایک جگہ رتھ کو روکا گیا اور وہاں پر یدھ نہیں مذاکرات کیے گئے، اور وہ زمین سندھ کی تھی جس نے ارجن کی رتھ کو روکا اور وہ روکنے والی ایک عورت تھی۔

مھا بھارت کے دور میں بھی اس دھرتی کی ایک بیٹی نی لہو بہنے کو نہیں مذاکرات کو اہمیت دی۔
سندھ کے مزاج میں امن صدیوں کا تسلسل ہے یہی وجہ ہے کہ سندھ کی موجودہ سیاست میں کوئی انتہا پسند گروہ ابھی تک کوئی جگہ نہیں بنا سکا۔
لیکن اس ماں کو یقین دہانی کراتے ہوئے ستر برس بیت گئے! ابھی بھی امتحان ہیں کیسے کیسے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).