زرعی یونیورسٹی کا فرسودہ تہذیبی تصور


ہر تہذیب خود کو دُنیا کے مرکز کی حیثیت سے دیکھتی ہے اور اپنی تاریخ لکھتے وقت اسے انسانی تاریخ کی مرکزیت کا درجہ دیتی ہے لیکن اس کے باوجود دُنیا کثیر تہذیبی رہی ہے اور تہذیبوں کی شناخت جغرافیہ کے گرد گھومتی رہی ہے، جو نظریہ، فکر، فلسفہ غالب ہوتا ہے تہذیب بھی اُسی کی غالب ہوتی ہے۔

تہذیب خود سے ایک مستقل ارتقائی سفر کا نام ہے اور ایک مخصوص جغرافیہ کا سماج اپنی تہذیبی ترقی کی بنیاد پر ہی معاشی ترقی کی طرف بڑھتا ہے۔

قوم تہذیب کے تابع ہوتی ہے یا تہذیب قوم کے تابع اس پر ماہرین عمرانیات و انسانیات مسلسل نظریات پیش کرتے چلے آئے ہیں۔ قبل از مسیح دور کی تہذیبوں کی کھوج جدید سائنسی دور میں ایڈونچر سے کم نہیں۔

مصر کی تہذیب ہو، ہڑپہ موہن جوداڑو کی تہذیب ہو، سامی النسل انسانی سماج ہو یا پھر یخ بستہ سماج میں بسنے والی اقوام ہوں ان سب کی اپنی تہذیبی شناخت ہے یہ تہذیب وسیع المعنی ہے اس میں ثقافت، زبان، رسوم، اطوار، رہن سہن حتیٰ کہ نوع انسانی کی افزائش نسل کے سماجی معائدات سبھی کچھ اس میں سما جاتا ہے۔

تہذیب میں زبان صرف ایک عنصر ہے جس کے ساتھ نہ تو تہذیب مکمل ہوتی ہے اور جس کے بغیر نہ تہذیب کا مطالعہ کامل ہوتا ہے۔ جس قوم کی معیشت طاقت ور ہوتی ہے اس کی تہذیب بھی طاقت حاصل کر لیتی ہے، مغلوب اقوام غالب قوم کی تہذیب اپنا کر طاقت کا اثر قبول کرتی ہیں۔ یہ تہذیبوں کا تصادم نہیں بلکہ تہذیبوں کی اپنی اپنی شناخت ہے۔ تصادم تب پیدا ہوتا ہے جب زبردستی کسی مغلوب قوم پر طاقت ور قوم اپنی تہذیب کا نافذ کرتی ہے۔

کوئی بھی تہذیب مستقل طور پر اپنی خالص شکل میں موجود نہیں رہی ہے۔ مثال کے طور پر عرب اقوام کا رہن سہن و طرز زندگی سو سال قبل انتہائی مختلف تھا، ماضی میں یورپ کے سماج کی ثقافتی شناخت کارپوریٹ روایات کی محتاج نہیں رہی۔ ایشیاء چونکہ کثیر القومی خطہ رہا ہے، یہاں کی قدیم تہذیب جو ہڑپہ و موہن جوداڑو سے منسلک تھی وہ اب اصل حالت میں موجود نہیں، قدرتی آفات یا پھر ماحول کے بدلنے سے اس کے بس آثار ہی باقی ہیں۔

کوئی بھی تہذیب روئے زمین پر آفاقی تہذیب نہیں ہے اور نہ ہم کسی مخصوص تہذیب کو مذہب کے تابع کر سکتے ہیں۔ مذہب ایک ہونے کے باوجود عرب کی تہذیبی شناخت عجموں کی تہذیبی شناخت سے مختلف ہے حتی کہ زبانیں بھی مختلف ہیں۔

مشرق و مغرب میں تہذیبوں کی جدا گانہ حیثیت میں یہاں کی آب اور ہوا، وسائل اور ارتقائی سفر کا بہت دخل ہے۔ مشرق کی اقوام نے سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹنے سے پہلے ہی برطانیہ و فرانس کی نوآبادیات کا درجہ حاصل کر لیا تھا اور اسی نوآبادیاتی عہد میں ہی تہذیب و ثقافت پر مباحثے و مکالمے ہوئے۔

شاہ ولی اللہ نے تہذیب و تمدن (ارتفاقات) کا وسیع نظریہ پیش کر کے اس اُلجھی گتھی کو 300 سال قبل سلجھا دیا تھا انھوں نے تہذیب کو چار درجوں میں تقسیم کیا اور تہذیب و تمدن کے ان درجوں میں انسانی ترقی کو ہی مرکزیت دی اور تہذیب کے اس جامع تصور میں مذہب کی بجائے انسانی سماج کو زیر بحث لایا گیا جس میں مادہ ایجاد و تقلید، رفاہ عامہ، حب جمال، قومی و بین الاقوامی سیاسی ڈھانچہ استوار کیا جاتا ہے۔

اب ہمیں دراصل تہذیبی شناخت کا جو مسئلہ درپیش ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب ہندستان نوآبادیاتی عہد سے نکل کر مابعد نوآبادیاتی عہد میں داخل ہوا تو یہاں کی ایلیٹ کلاس کا تمدن نوآبادیاتی عہد کا تسلسل بنا۔ یہ تمدن ہمارے سماج کی مڈل کلاس تک سرایت کر گیا اور اب ہم انفرادی و اجتماعی طور پر اس تمدن کو ہی تعلیم یافتہ تمدن سمجھنے پر آمادہ ہیں۔ ہندوستان کے نظام تعلیم میں طلباء کو نہ صرف انگلش ادب بلکہ انگلش نسل کی برتری کے متعلق بھی پڑھایا جاتا تھا، اس کے علاوہ تصورات، نظریات، بربریت، قدیمیت اور تہذیب کے متعلق نیم سائنسی خیالات بھی اُنڈیلے گئے یعنی نوخیز بشریات، ڈارون ازم، عیسائیت، افادیت پسندی، عینیت، نسلی نظریہ، قانونی تاریخ، لسانیاتی نظریات تک یورپ سے برآمد کر کے ہمیں پڑھائے گئے۔

جب ہندستان کو تقسیم کیا گیا تو بالخصوص ہمارے سماج کا پورا معاشی و سیاسی ڈھانچہ مغرب کے ماڈل کی بنیاد پر بنایا گیا اور اس ڈھانچے کے ساتھ ہی ہماری ایلیٹ کلاس نے مخصوص تہذیبی شناخت کو استوار کیا۔ گویا سماجی و سامراجی غلبے کے لیے ضروری ٹھہرا تھا کہ بالادست طبقے کی شناخت کو تہذیبی شناخت کے طور پر پیش کیا جائے۔ تقسیم ہند کے 70 برس بعد بھی ہماری دیہی و شہری تہذیب مختلف ہے۔ پھر یہی نہیں بلکہ رسوم و رواج تک مختلف ہیں، زبانیں مختلف ہیں اگر ان کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو بہت سارے تہذیبی تضادات کا اظہار ہوتا ہے۔

یہاں ‌ پر تہذیب و تمدن کا خاکہ کھینچنے کی بنیادی وجہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کا وہ فیصلہ ہے جس میں چودہ فروری کو سسٹرز ڈے منانے کا اعلان ہوا ہے۔ رئیس جامعہ ظفر اقبال رندھاوا مغرب کا مقابلہ سسٹرز ڈے منانے میں پوشیدہ سمجھتے ہیں، شاید یہ ضیاء سے متاثر ہیں یا پھر ضیاء کی تربیت یافتہ جماعت اسلامی کے فلسفے سے جو سماج میں شدت پسند نظریات کا سہارا کی بنا پر حیا ڈے منا کر مسلمانوں کے ایمان کو محفوظ رکھنے کو افضل جہاد سمجھتی ہے اگر اس کے لیے امریکی ڈالرز مل جائیں تو فضیلت و مرتبہ مزید بڑھ جاتا ہے۔

تہذیب و تمدن کا نظریہ جب وضع نہ ہو تو علم و تحقیق کے مرکز بھی کھوکھلے نظر آتے ہیں۔ جس مغربی تہذیب کے مقابلے پر مذہبی تہذیب کو جامعہ میں منانے کا اعلان ہوا ہے یہ تہذیب خود ہندستانی تہذیب سے اخذ شدہ ہے جہاں پر ہر سال رکشھا بندھن منایا جاتا ہے اور ہندو مرد ہندو خواتین یا اپنی بہنوں کو راکھی باندھتے ہیں۔ پھر یہ کیسی منطق ہے۔ ایک طرف مغرب سے محدود نفرت کی بنا پر اُن کی رسم کو مسترد کرنے کا اعلان ہے تو دوسری جانب اسی دن ردعمل میں ایک رسم کو نافذ کیا جا رہا ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہوگا کہ زرعی یونیورسٹی چودہ ہزار میں سے ایک ہزار طالبات کو راکھی کی جگہ دوپٹے تقسیم کرے گی اور ضرور یہ دوپٹے بھی کسی سرمایہ دار سے ملنے والی امدادی رقم سے خرید کر دیے جائیں گے۔

یہ کون سی تہذیبی جنگ ہے جس کی حفاظت زرعی یونیورسٹی نے اپنے سر لی ہے؟ کیا رئیس جامعہ جہاد افغانستان کی باقیات کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں یا پھر یونیورسٹی میں شدت پسند نظریات کی ترویج کے خواہش مند ہیں؟

جامعہ میں طلباء کو نصاب انگریزی زبان میں پڑھایا جاتا ہے، کتابیں انگریزی زبان میں ہیں، امتحان انگریزی زبان میں ہوتا ہے، زراعت میں ریسرچ انگریز کی ایجاد کردہ مشینری سے ہوتی ہے اور یہ کتنا مضحکہ خیز ہوگا کہ چودہ فروری کو پینٹ کوٹ پہنے اور ٹائی لگائے انتظامی افسران انگریزی زبان کا سہارا لے کر سپیکر میں بذریعہ اعلانات لڑکیوں ‌ میں دوپٹے تقسیم کر کے مشرقی تہذیب سکھا رہے ہوں گے۔

قومی تہذیبی شناخت استوار کرنے میں اتنی ہی فکر مندی ہے تو پھر مقامی زراعت کی ترقی کے نئے علوم و ایجادات کر لیں، پاکستان کی زرعی معیشت میں پیداوار بڑھانے کی نئی تکنیک عام کر دیں، فصلوں کو کیڑوں کے حملوں سے بچانے کی سستی ادوایات تیار کر لیں، لائیو سٹاک انڈسٹری کی ترقی کے لیے کوئی نئے ماڈل ہی متعارف کرا دیں، یا پھر طلباء کو اُردو، پنجابی زبان میں نصاب پڑھانے کے لیے اپنے اساتذہ سے کتابیں ہی لکھوا لیں۔

ویسے تو جامعہ زرعیہ کو پاکستان کی بنجر زمین سے متعلق فکر مندی کرنی چاہیے یا پھر زرعی سائنس و ٹیکنالوجی میں ایسی ایجادات کرنی چاہیے جنہیں خریدنے کے لیے یورپ کی کمپنیاں ان کے پاس چل کر آئیں، یا پھر اپنے یہاں معیار تعلیم ہی اتنا بلند کر دیں کہ یورپین ممالک کے طلبا پاکستان میں زرعی ٹیکنالوجی کی تعلیم سیکھنے کے لیے آئیں۔

کیونکہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم لڑکے و لڑکیوں کو بہن بھائی بنانے کے فلسفہ پر کام کرنے سے نہ تو سرمایہ دارانہ نظام کو کوئی فرق پڑے گا، نہ ہی مغرب کی تہذیبی شناخت کا خاتمہ ہوگا، نہ ہی پاکستان میں رائج جاگیردارنہ استحصالی نظام سے کسان کو ریلیف ملے گا کیونکہ بہن ڈے منانے کا اعلان کرنے والوں کے اپنے بچے اُن سکولوں میں پڑھتے ہیں جہاں پر مغرب کی تہذیب سکھائی جاتی ہے، جہاں پر انگریزی بولنا سکھائی جاتی ہے۔ تہذیب و تمدن کے فلسفے و نظریات کو مشرق سے پیوستہ کرنا ہے تو پھر اپنی جڑیں بھی اسی زمین میں پیدا کرو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).